اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل 'ایچ آ ر سی' میں امریکی سفیر نے انسانی حقوق کے ادارے کی طرف سے اسرائیل سے روا رکھے جانے والے مبینہ غیر مناسب رویہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کونسل کی قراردادوں میں اسرائیل کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔
بدھ کو جنیوا میں ہونے والے کونسل کے ایک بڑے اجلاس کے دوران امریکی سفیر ارئین بارکلے نے انسانی حقوق کی کونسل پر الزام عائد کیا کہ اسرائیل ان کی"سوچ پر حاوی" ہے اور انہوں نے کہا کہ اس سے کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کے خلاف انسانی حقوق سے متعلق اگر کوئی شکایت ہو تو اُس کے خلاف غیر جانبدارانہ چھان بین ہونی چاہیئے لیکن ’’کسی جمہوری ملک کو تواتر کے ساتھ غیر منصفانہ، غیر متوازن اور بے بنیاد تعصب کا نشانہ نہیں بنانا چاہیئے۔"
انہوں نے شام، ایران اور شمالی کوریا جیسے ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے اسرائیل پر سال تنقید نے صرف "اس کونسل کو مذاق بنا دیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے اور اس کی جائز حیثیت کو ختم کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کرے گا۔
ایچ آر سی کا "ایجنڈا آئیٹم 7" رکن ملکوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں کونسل کے ہر اجلاس میں بحث کریں۔
اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس کے لیے مخصوص ایجنڈا ہے جب کہ دیگر ملکوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایک الگ ایجنڈا آئیٹم کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے۔
برکلے نے کونسل سے کہا کہ وہ اس "غیر متوازن اور لاحاصل" طریقہ کار کو چھوڑ کر عالمی سطح پر "سب سے اہم انسانی حقوق کی صورت حال" کی طرف اپنی توجہ مبذول کرے۔
جب اس کونسل کی تشکیل ہوئی تھی تو امریکہ نے اس بنا پر اس کا رکن بننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ بعض آمرانہ حکومتیں بھی اس کی رکن تھیں اور امریکہ کو اس پر تحفظات تھے۔
تاہم صدر اوباما کے 2009ء میں صدر بننے کے بعد امریکہ کونسل میں شامل ہو گیا، جس کے بعد واشنگٹن اپنے ہم خیال ملکوں کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔