عالمی بینک ایک تجویز کو حتمی شکل دے رہا ہے جس کے ذریعے افغانستان کے 50 کروڑ ڈالر کی منجمد امدادی رقم فراہم ہو سکے گی، جسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کے حوالے کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ بات حالات سے باخبر افراد بتائی ہے۔ لیکن اس مد میں سرکاری شعبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں کارکنوں کی کوئی مدد نہیں ہو پائے گی، کیونکہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں صورت حال پیچیدہ ہو چکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس تجویز پر غور کرنے کے لیے عالمی بینک کے بورڈ کے ارکان نے منگل ہی کے روز ایک غیر رسمی اجلاس منعقد کیا تاکہ حالیہ ہفتوں کے دوران اس ضمن میں امریکی اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں سے ہونے والی بات چیت آگے بڑھائی جا سکے۔ تجویز یہ ہے کہ افغانستان کے تعمیراتی فنڈ میں سے رقوم جاری کی جاسکیں، جس مد میں 1.5 ارب ڈالر جمع ہیں۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کی تین کروڑ 90 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی معاشی طور پر شدید بحرانی صورت حال سے دوچار ہے، اسے سخت سردی، غذائی اشیا کی سخت کمی اور غربت میں اضافے کی مشکلات کا سامنا ہے۔ تین ماہ قبل طالبان نے کنٹرول سنبھالا تھا، جب 20 سال بعد ملک سے امریکی افواج کا انخلا ہوا۔
افغان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس امدادی رقم کے میسر آنے سے کچھ فرق پڑے گا، لیکن کئی اعتبار سے معاملہ الجھا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق، امریکی پابندیوں کے نتیجے میں مالیاتی ادارے امدادی کام میں شریک نہیں ہیں جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے معاملہ بھی توجہ کا طالب ہے۔
ٹامس ویسٹ دوحہ میں طالبان سے کیا بات چیت کریں گے؟
طالبان راہنماؤں سے بات چیت کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آئندہ ہفتے دو روزہ دورے پر دوحہ جائیں گے۔ یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کے روز بتائی۔
پرائس کے مطابق، ٹامس ویسٹ دوحہ میں افغانستان سے متعلق اہم قومی مفادات پر گفتگو کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں انسداد دہشت گردی، امریکی شہریوں اور افغان باشندوں کے بحفاظت انخلا کے معاملے پر بات ہوگی جس میں ہمیں خصوصی دلچسپی ہے؛ ساتھ ہی انسانی ہمدردی سے متعلق اعانت اور ملک کی معاشی صورت حال کے معاملات بھی شامل ہیں۔
SEE ALSO: طالبان حکومت کے وزیرِ اعظم کا قوم سے خطاب، 'افغان عوام کو صبر نہیں ریلیف چاہیے'اس سے قبل اسی ماہ امریکی ایلچی ٹام ویسٹ نے افغانستان پر وسیع تر ٹرائیکا کے اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں پاکستان، چین، روس اور امریکہ شامل ہیں۔ اس گروپ نے طالبان کے سینئر نمائندوں کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی۔
ویسٹ اُس امریکی وفد میں شریک تھے جس نے اکتوبر میں دوحہ میں طالبان عہدے داروں سے ملاقاتیں کی تھیں، جو 31 اگست کو افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے خاتمے کے بعد امریکہ اور طالبان کے مابین پہلی بات چیت تھی۔
پندرہ اگست کو طالبان کے اقتدار پر کنٹرول کے بعد افغانستان کی امداد کرنے والی مغربی حکومتوں کی جانب سے زیادہ تر غیر ملکی ترقیاتی امداد روک دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت مشکل میں پھنس چکی ہے۔ ملک کو نقدی کی دستیابی کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ مغربی ملکوں کی جانب سے طالبان راہنماؤں پر پابندیاں عائد ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں موسم سرما آسان نہیں ہوگا؟
انتہائی غربت کا شکار افغان آبادی بدترین انسانی بحران کے دہانے پر ہے، لاکھوں لوگ پہلے ہی فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ ساتھ ہی قحط سالی کے علاوہ کھانے کی موجود اشیا کی قیمتیں سخت گراں ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی روزانہ کی اخباری بریفنگ میں منگل کی شام بتایا گیا کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چلا گیا ہے، جس کے باعث لوگوں کو گرم کپڑوں، ہنگامی پناہ گاہوں، گرم رکھنے کے لیے ہیٹرز اور ایندھن کی ضرورت ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سالوں کی طرح نومبر میں ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف اور دم گھٹنے کے واقعات میں اضافہ عام سی بات ہے۔ عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ حال ہی میں کنڑ، ننگرہار اور نورستان کے صوبوں کے 32،200 افراد میں موسم سرما سے بچاؤ کے لیے امداد فراہم کی گئی، جب کہ امدادی کام کو مزید تیز کیا جا رہا ہے۔
پیر کے دن صوبہ جوزجان میں نقدی امداد تقسیم کی گئی۔ اس سلسلے میں 1750 افراد کی مدد کی گئی، جس دوران خاص طور پر ایسے افراد کی مدد کی گئی جو داخلی طور پر بے گھر ہیں یا قحط سالی کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ 2021ء کے سال کے دوران امدادی کام کے لیے افغانستان کے لیے 60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے عطیات کی اپیل کی گئی تھی، جس سے زائد رقم اکٹھی ہوچکی ہے۔
[اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے]