امریکہ اور یورپ باہمی تجارت کے لئے ایک دوسرے کی مصنوعات پر عائد محصولات ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن تجارتی مذاکرات پیچیدگی کا شکار ہیں، معاہدے پر بات چیت کا دوبارہ آغاز ہونے کے باوجود اس بات کا امکان کم ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان جلد کوئی تجارتی معاہدہ ہوجائے گا۔
تجارتی معاہدے کے نتجے میں بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف کے ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں سالانہ 100 ارب ڈالر کے اضافہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے، لیکن مسئلہ خاصا پیچدہ ہے اور اس بات کی ضمانت نہیں کہ معاہدہ جلد حتمی شکل اختیار کرسکے گا۔
امریکہ اور 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدے کے لئے بات چیت کا آغاز دو برس قبل ہوا تھا، جس کا دوبارہ آغاز اسی ہفتے ہوا ہے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معشیت ہے، جبکہ یورپی یونین تمام اتحادی ممالک کو ملا کر اس سے بھی بڑی معیشت بن چکی ہے۔
یورپی یونین اور امریکہ فوجی سطح پر نیٹو کے پلیٹ فارم سے اشتراک کررہے ہیں اور سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت بھی، لیکن تجارت پر عائد محصولات معاشی سرگرمیوں کے فروغ کو محدود کررہی ہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین دونوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ دونوں ممالک اپنی مصنوعات کے باہمی تجارت پر عائد دو طرفہ محصولات ختم کردیں گے۔
اکیسویں صدی میں تاریخی طور پر یورپ اور امریکہ ایک دوسرے کی تجارتی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی عائد کرتے رہے ہیں۔ یورپین کمیشن کے صدر جین کلاوڈ جونکر نے گزشتہ برس کہا تھا کہ وہ فوری طور پر اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
امریکہ نے بھی اسی طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔ وہ ہر روز 730 ملین ڈالر کا سامان یورپ بھیجتا ہے اور سمجھتا ہے کہ محصولات کے خاتمے سے دونوں ممالک زیادہ کنٹریکٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ یورپ کے دیگر فری ٹریڈ پارٹنر چلی، میکسکو ،جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ کی طرح فری ٹریڈ پارٹنر بننا چاہتا ہے۔
تجارتی مذاکرات میں اٹلانٹک کے دونوں اطراف میں لیبر ، ماحولیاتی معیار۔ تجارتی تنازعات کا کنڑول، امریکہ اور یورپ میں کارپوریٹ سرمایہ کاری کے قوانین کے نکات بھی زیر بحث ہیں ۔
امریکی ٹریڈ آفس کا کہنا ہے کہ معاہدہ بین الااقوامی مسابقت پیدا کرے گا اور دونوں اطراف میں ایک کروڑ تیس لاکھ ملازمتوں کے نئےمواقع پیدا ہوں گے۔
امریکی قانون ساز، خصوصاً ڈیموکریٹس اس معاہدے پر خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں امریکی کمپنیاں اپنا آپریشن یورپ منتقل کردیں گی، جس سے بڑی تعداد میں ملازمتوں کے مواقع بیرون ملک منتقل ہوجائیں گے۔ لیکن، ان کے مقابلے میں تجارتی سرگرمیوں کے حامی ریپبلکنز جو کہ عمومی طو رپر صدر اوباما کے مخالف رہے ہیں اس معاہدے کے حق میں ہیں۔
یورپ میں ہزاروں مظاہرین نے مجوزہ معاہدے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہےاور سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے ملازمین کے حقوق متاثر ہوں گے اور یہی کچھ امریکی لیبر یونین بھی کہتی چلی آرہی ہیں۔