وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ پیر کے روز افغانستان میں کابل کے ہوائی اڈے پر راکٹ حملے کے بعد انخلا کا آپریشن بلا تعطل جاری ہے۔
عینی شاہدین نے متعدد راکٹ گرنے کی اطلاع دی ہے جب کہ ایک امریکی اہل کار نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ راکٹوں کو میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے روک دیا گیا۔
ایس آئی ٹی ای انٹیلی جنس گروپ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ (داعش خراسان) نے راکٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کو حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ بیان میں صدر بائیڈن کے اس حکم کی دوبارہ تصدیق کی گئی جو انہوں نے امریکی فورسز کی حفاظت کے لیے کمانڈورں کو اپنی کوششیں دو گنا کرنے کے لیے دیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں جو بھی ضروری ہو، اسے ترجیج دیں۔
امریکہ، افغانستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی ایک ایسی صورت حال میں منگل کی ڈیڈ لائن سے پہلے کابل سے انخلا مکمل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، جب کہ جمعرات کو ہوائی اڈے کے باہر ایک خودکش حملے میں کم از کم 170 افغان شہری اور 13 امریکی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
SEE ALSO: کابل: امریکی فضائی کارروائی میں عام شہریوں کی بھی ہلاکتامریکی فوج اتوار کے روز کیے گئے اس فضائی حملے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات کی بھی تحقیقات کر رہی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حملہ حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو داعش سے لاحق خطرے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا۔
سینٹ کام کے ترجمان، کیپٹن بل اربن نے اتوار کی رات اپنے ایک بیان میں کہا کہ "معصوم جانوں کے کسی بھی ممکنہ نقصان سے ہمیں بہت دکھ ہو گا۔"
اربن نے کہا کہ فضائی حملے کے نتائج کا ابھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور یہ کہ ثانوی دھماکوں سے "اضافی جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ہوا ہو گا، اور ہم مزید تحقیقات کر رہے ہیں"۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق ڈرون حملے یا ثانوی دھماکوں میں 9 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک خاتون دینہ محمدی نے کہا کہ اس عمارت میں ان کے بڑے خاندان کے افراد رہائش پذیر تھے، جن میں سے کئی ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ خاتون فوری طور پر اس قابل نہیں تھیں کہ مرنے والوں کے نام یا عمریں بتا سکتیں۔
جیسے ہی انخلا سے متعلق 31 اگست کی امریکی ڈیڈ لائن قریب آ گئی ہے، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلپپو گرانڈی نے پیر کے روز کہا کہ افغان عوام کو حکومتوں، انسانی ہمدردی کی مدد کے لیے کام کرنے والوں اور عام لوگوں کی جانب سے ان کا ساتھ دیے جانے کی ضرورت ہے۔
گرانڈی کے بیان میں کہا گیا ہے، "جیسا کہ دنیا بھر میں لوگ اور کمیونیٹیز انخلا کرنے والے افغان باشندوں کا خیرمقدم کر رہی ہیں، ہم ان لوگوں کو نہیں بھول سکتے جو پیچھے رہ گئے ہیں۔"
ہمیں افغانستان اور خطے کے آس پاس کے ممالک میں انسانی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے اور ہمارا ردعمل ٹھوس اور فوری ہونا چاہیے۔ افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا مطلب ان سب کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، چاہے وہ اپنی سلامتی کے لیے بیرون ملک چلے گئے ہیں یا وہ افغانستان میں ہی اپنی زندگی کے مصائب جھیل رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، جولائی کے اختتام سے پیر تک تقریباً ایک لاکھ 22 ہزار افراد کو کابل سے باہر کے ملکوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
سیکرٹری آف اسٹیٹ اینٹنی بلنکن نے اتوار کو اے بی سی نیوز چینل کے ایک پروگرام میں بتایا، ہم اس وقت افغانستان میں اپنے اس غیر معمولی طور پر خطرناک مشن کے سب سے خطرناک وقت سے گزر رہے ہیں۔
ریپبلکن امریکی سینیٹر' بین سیسی' نے بھی اے بی سی نیوز پر بائیڈن انتظامیہ کی انخلا سے متعلق کارروائیوں پر تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ان کا منصوبہ بنیادی طور پر خوش کن گفتگو تک ہی محدود رہا ہے۔
بلنکن نے سی این این پر ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں اب بھی تقریباً 300 امریکی شہری موجود ہیں جو وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔