امریکہ کی خاتون اول نے اپنے جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے علاقے میں جمہوریت، تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے اور ان کی ترقی کے لیے اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائیں۔ انہوں نے جنوبی افریقہ کے اپنے دورے میں افریقی نوجوانوں سے ملاقات کی اور قومی ترقی میں اپنا کردار اداکرنے کےلیے کہا۔
ریگینا مونڈی نامی ایک کیتھو لک چرچ سے امریکی خاتون اول مشیل اوباما نے افریقہ کے نوجوانوں اور خاص طور سے نوجوان خواتین سے کہا کہ اپنے حالات بدلنے کے لیے انہیں خود آگےآنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آپ وہ نسل ثابت ہوسکتے ہیں جو معیشتوں میں انقلاب لاتی ہے ، نئی دریافتیں کرتی اور نئی صنعتوں کی تعمیر سرانجام دیتی ہے ۔ اور آپ اس خطے میں ، جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے، خوش حالی اور نئے مواقعوں کی نوید بن سکتے ہیں اور آپ اس پس ماندہ علاقے سے بھوک اور ایڈز جیسے موذی مرض کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
امریکی خاتون اول نے کہا کہ افریقی نوجوان خطے کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہاں تیزی سے ترقی ہورہی ہے اور نئی جمہوریتیں فروغ پارہی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کے پیش نظر افریقہ کے پاس دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ میں آج یہاں اس لیے آئی ہوں کیونکہ جب آپ کو چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے تو آپ ان سے نمٹے بغیر آرام سے نہیں بیٹھ سکتے ، میں اس لیے آئی ہوں کیونکہ کسی بھی مشکل صورت حال سے مقابلے کے لیے مجھے آپ کی قابلیت پر بھروسہ ہے۔
مشیل اوباما کی یہ تقریر ان کے حالیہ افریقی دورے کا ایک اہم حصہ ہے جس میں انہوں نے افریقہ میں نسلی تعصب کے خلاف جدو جہد کی علامت 92 سالہ سابق صدر نیلسن مینڈیلا سے بھی ملاقات کی ۔
http://www.youtube.com/embed/KxMw4cnLoQw
مسز مشیل اوباما نے ان خیالات کا اظہار نوجوان افریقی خواتین راہنماوں کے لیے امریکہ کے زیر اہتمام ہونے والے ایک فورم میں کیا ۔ فورم میں شریک 21 سالہ سرگرم کارکن قوئیٹریا نے کہا کہ اس فورم میں آکر انہیں تعلیم ، صحت اور اچھی حکومت کی راہ میں حائل مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ ملا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ دوسری نوجوان افریقی خواتین راہنماوں کے لیے اس طرح کے مزید مواقع پیدا کرنا صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے صرف حکومت کی نہیں ۔
اس فورم کا انعقاد اور امریکی خاتون اول کی تقریر سوٹو نامی شہر میں ہوئی ، جو کسی زمانے میں انتہائی پس ماندہ تھا اور جہاں کے نوجوانوں نے نسلی تعصب کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں سفید فام اقلیت کی تعصب پر مبنی حکومت کے خاتمے میں مدد دی تھی۔
ایک ہائی سکول کی سترہ سالہ طالبہ تھاٹو کے مطابق اس شہر کے نوجوان اب ترقی کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ ان کا کہناتھا کہ ایسا صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ ہماری جدو جہد کا محور سخت محنت ، تعلیم کا حصول اور تعلیمی کامیابی ہے ۔
جوہانسبرگ کا حصہ بننے والا قصبہ سوٹواب بھی کئی معاشی مسائل کا شکار ہے ۔ لیکن اس کے متوسط طبقے میں اضافہ ہورہا ہے ۔ تھاٹو کا کہنا ہے کہ اسے امریکی خاتون اول کی جانب سےاس قصبے کے انتخاب پر بہت فخر محسوس ہو ا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ میں جانتی ہوں کہ ان کاشمار بہت فیشن ایبل خواتین میں ہوتا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔لیکن اس سے بھی بڑھ کر اہمیت نوجوانوں کو اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے ان کی کوششوں کی ہے ۔
تھاٹو یہ بھی محسوس کرتی ہیں کہ یہ دورہ خود ان کے اپنے علاقے کی نئی زندگی کی علامت ہے ۔