ادلب: امریکی فوج کی شامی القاعدہ کی تنصیب پر بمباری

فائل

امریکی افواج نے ہفتے کے روز شام کے شہر ادلب کے شمال میں واقع القاعدہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ امریکی سنٹرل کمان، جو محکمہ دفاع کا ایک حصہ ہے، کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد القاعدہ تنظیم کی قیادت کو ہدف بنانا تھا۔

ایک اِی میل بیان میں سنٹرل کمان کے میڈیا آپریشنز کے سربراہ، لیفٹیننٹ کرنل ارل براؤن نے کہا ہے کہ ’’اس کارروائی کا ہدف شامی القاعدہ کے رہنما تھے جو امریکی شہریوں، ہمارے ساتھیوں، اور بے گناہ شہریوں کے خلاف حملوں کے ذمے دار ہیں‘‘۔

براؤن نے کہا کہ اس تنصیب کی تباہی سے خطے پر حملے کرکے، اسے عدم استحکام کا شکار بنانے کی القاعدہ کی استعداد مزید کمزور پڑ جائے گی۔

براؤن کے بقول، ’’شمال مغربی شام ایک محفوظ ٹھکانہ بن چکا ہے جہاں شامی القاعدہ کے رہنما خطے اور مغرب میں دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کی مدد سے ہم پرتشدد انتہا پسندوں کو ہدف بناتے رہیں گے، تاکہ شام کو اُن کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے‘‘۔

’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے کہا ہے کہ فضائی کارروائی کے دوران شام کے شمال مغرب میں واقع جہادی جنگجوؤں کے اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔

برطانیہ میں قائم نگرانی کے ادارے نے بتایا ہے کہ فضائی حملے صوبہ ادلب کے معرات مصرن کے قصبے کے قریب کیے گئے، جن میں 40 سے زائد شدت پسند ہلاک ہوئے، جن میں چند کمانڈر بھی شامل تھے۔

رائٹرز کی خبر کے مطابق، شام کا یہ شمال مغربی کونا، جس میں ادلب بھی آجاتا ہے، ملک کا بڑا رقبہ ہے جو آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی لڑائی کے باوجود، ابھی تک باغیوں کے زیر قبضہ ہے۔

ادلب میں ’حیات تحریر الشام‘ ایک غالب طاقت کی حامل ہے۔ اس سے قبل، اس جہادی اتحاد کو ’نصرہ محاذ‘ کہا جاتا تھا، جس نے 2016ء میں القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ تاہم، اُس کے متعدد دھڑے، جن میں ترکی کی پشت پناہی والے باغی بھی شامل ہیں، یہاں موجود ہیں۔

حالیہ برسوں کے دوران شام کے شمال مغرب میں امریکہ ’نصرہ‘ کے کمانڈروں کو فضائی کارروائیوں کا نشانہ بناتا رہا ہے۔