پاک افغان خطے کے بارے میں امریکی پالیسی کی ناکامی پر کتاب لکھنے والے سابق امریکی مشاورت کار کہتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات، امریکہ کی پاک افغان حکمت ِعملی کا شکار ہو گئے ، اس وقت اپنی کمزور ترین سطح پر ہیں۔
واشنگٹن —
اوباما انتظامیہ کی افغانستان اور پاکستان پالیسی کے سابق مشاورت کار ولی نصر نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات دوہزار گیارہ اور بارہ کے بعد سے اب تک اپنی کمزور ترین سطح پر ہیں۔
ولی نصر کے الفاظ، ’’اس وقت یہ تعلقات امریکہ کے افغانستان سے انخلاء پر مرکوز ہیں ، یعنی سڑکوں تک رسائی ، فوج کے سازوسامان کو لے جانے والی راہداری اور انسداد دہشت گردی میں کسی حد تک تعاون تک محدود ہیں۔‘‘
ولی نصر کا، جو جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں اپنی نئی کتاب ’’Dispensable Nation: American Foreign Policy in retreat‘‘ کی تقریب کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کر رہے تھے، کہنا تھا کہ ان کے خیال میں امریکہ کو پہلے جنوبی ایشیاء سے اپنے تعلقات کی نوعیت طے کرنا ہوگی اور پاکستان یا افغانستان سے تعلقات کی باری بعد میں آئے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایسا اوباما انتظامیہ کے دور میں ہو سکے گا؟ ولی نصر کا کہنا تھا کہ ’’بعض اوقات تعلقات کی سمت زمینی حقائق یا واقعات کی روشنی میں طے کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت کم پیش رفت ہو رہی ہے اور دونوں ایک ورکنگ ریلیشن شپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان میں اگلی آنے والی حکومت کیسی ہوگی، کیا ان کے پاس تعلقات میں بہتری لانے کے کچھ نئے آئیڈیاز ہیں، کیا ان کے پاس کوئی راستہ ہے کہ ابھی جو تعلقات ہیں، ان کی بنیاد پر نئے تعلقات بنائے جائیں۔ اس وقت مجھے لگتا ہے کہ تعلقات مستحکم ہیں لیکن ان میں کوئی مثبت بہتری نہیں آرہی۔‘‘
امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی نئی کتاب پر بات کرتے ہوئے ولی نصر کا کہنا تھا کہ’’ امریکہ کی پاک افغان حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی ۔ ہم نہ طالبان کے مسئلے کا کوئی حل نکال سکے ، نہ انہیں شکست دے سکے۔ اور نہ ہی کسی امن عمل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ ہم بس افغانستان سے نکل رہے ہیں ۔ میرے خیال میں پاک امریکہ تعلقات بھی امریکہ کی پاک افغان حکمت عملی کی ایکcasualty تھے۔ اور 2009میں اس سے کہیں بہتر تھے، جو آج ہیں ۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر اوباما انتظامیہ کی ایف پاک حکمت ِعملی کے معمار سمجھے جانے والے سابق مشاورت کار رچرڈ ہولبروک حیات ہوتے ، تو کیا پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت آج سے مختلف ہوتی؟ ،ولی نصر نےکہا کہ ’’ہالکل کیونکہ ہولبروک دباؤ ڈالنا جانتے تھے ۔۔ جو وہ کرنا چاہتے تھے اگر وہ امریکی پالیسی کا اہم حصہ بنتا تو تعلقات کی سمت مختلف ہوتی۔ رچرڈ ہولبروک کا خیال تھا کہ امریکہ کے پاکستان سے روابط وسیع تر سٹریٹیجک تعلقات کا حصہ ہونے چاہئیں۔ اور ہمیں توانائی، پانی، انفرا سٹرکچر، عورتوں کے حقوق اور سول سوسائٹی ،ہر معاملے پر پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے۔۔ میرے خیال میں اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج بہتری آسکتی تھی۔ لیکن کچھ غلطی پاکستان کی بھی تھی۔۔۔ پاکستان نے بھی امریکہ سے تعلقات کی (ownershipا)ذمہ داری نہیں لی۔ جس کی وجہ سے ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد تعلقات ایک دم خراب ہوئے۔ پاکستان میں عوامی رائے اہم تھی لیکن پاکستانی حکومت اور فوج کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عوامی رائے کو مثبت انداز میں ہموار کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔‘‘
ولی نصر نے اپنی کتاب میں افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی حکمت عملی کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ امریکی محکمہ ِخارجہ کے مقابلے میں فوجی قیادت کی رائے کو زیادہ اہم سمجھا گیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی طرح اگر امریکہ میں بھی فوج ہی تمام معاملات کنٹرول کرتی ہے تو دونوں ملکوں میں فرق کہاں ہوا؟ ، ولی نصر کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں خارجہ پالیسی پر فوج کے کنٹرول کا لیول مختلف ہے۔ امریکہ میں سویلین حکومت ہی پالیسی بناتی ہے لیکن فوج کا نکتہِ نظر حالیہ دنوں میں ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے ، تاہم پاکستان میں بھی سویلین حکومت کو خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
’’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں سویلین حکومتیں اتنی بے بس ہیں، جتنا بظاہر سمجھا جاتا ہے ۔ میں اسے درست توجیہہ نہیں سمجھتا۔ پاکستان میں حکومت کو خارجہ پالیسی میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ نئی پاکستانی حکومت امریکہ سمیت دوسرے ملکوں سے تعلقات بنانے کے لئے کیا کرتی ہے۔‘‘
ولی نصر نے خدشہ ظاہر کیا کہ دو ہزار چودہ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ ایسی صورتحال کو کنٹرول کرنے والے سیاسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور ہیں۔
ولی نصر کا کہنا تھا کہ پاک افغان خطے کے لئے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی تبھی آسکتی ہے، اگر کسی وجہ سے امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے کوئی مشکل صورتحال پیدا ہو جائے۔
ولی نصر کے الفاظ، ’’اس وقت یہ تعلقات امریکہ کے افغانستان سے انخلاء پر مرکوز ہیں ، یعنی سڑکوں تک رسائی ، فوج کے سازوسامان کو لے جانے والی راہداری اور انسداد دہشت گردی میں کسی حد تک تعاون تک محدود ہیں۔‘‘
ولی نصر کا، جو جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں اپنی نئی کتاب ’’Dispensable Nation: American Foreign Policy in retreat‘‘ کی تقریب کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کر رہے تھے، کہنا تھا کہ ان کے خیال میں امریکہ کو پہلے جنوبی ایشیاء سے اپنے تعلقات کی نوعیت طے کرنا ہوگی اور پاکستان یا افغانستان سے تعلقات کی باری بعد میں آئے گی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایسا اوباما انتظامیہ کے دور میں ہو سکے گا؟ ولی نصر کا کہنا تھا کہ ’’بعض اوقات تعلقات کی سمت زمینی حقائق یا واقعات کی روشنی میں طے کی جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہت کم پیش رفت ہو رہی ہے اور دونوں ایک ورکنگ ریلیشن شپ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان میں اگلی آنے والی حکومت کیسی ہوگی، کیا ان کے پاس تعلقات میں بہتری لانے کے کچھ نئے آئیڈیاز ہیں، کیا ان کے پاس کوئی راستہ ہے کہ ابھی جو تعلقات ہیں، ان کی بنیاد پر نئے تعلقات بنائے جائیں۔ اس وقت مجھے لگتا ہے کہ تعلقات مستحکم ہیں لیکن ان میں کوئی مثبت بہتری نہیں آرہی۔‘‘
امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی نئی کتاب پر بات کرتے ہوئے ولی نصر کا کہنا تھا کہ’’ امریکہ کی پاک افغان حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی ۔ ہم نہ طالبان کے مسئلے کا کوئی حل نکال سکے ، نہ انہیں شکست دے سکے۔ اور نہ ہی کسی امن عمل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ ہم بس افغانستان سے نکل رہے ہیں ۔ میرے خیال میں پاک امریکہ تعلقات بھی امریکہ کی پاک افغان حکمت عملی کی ایکcasualty تھے۔ اور 2009میں اس سے کہیں بہتر تھے، جو آج ہیں ۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر اوباما انتظامیہ کی ایف پاک حکمت ِعملی کے معمار سمجھے جانے والے سابق مشاورت کار رچرڈ ہولبروک حیات ہوتے ، تو کیا پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت آج سے مختلف ہوتی؟ ،ولی نصر نےکہا کہ ’’ہالکل کیونکہ ہولبروک دباؤ ڈالنا جانتے تھے ۔۔ جو وہ کرنا چاہتے تھے اگر وہ امریکی پالیسی کا اہم حصہ بنتا تو تعلقات کی سمت مختلف ہوتی۔ رچرڈ ہولبروک کا خیال تھا کہ امریکہ کے پاکستان سے روابط وسیع تر سٹریٹیجک تعلقات کا حصہ ہونے چاہئیں۔ اور ہمیں توانائی، پانی، انفرا سٹرکچر، عورتوں کے حقوق اور سول سوسائٹی ،ہر معاملے پر پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے۔۔ میرے خیال میں اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج بہتری آسکتی تھی۔ لیکن کچھ غلطی پاکستان کی بھی تھی۔۔۔ پاکستان نے بھی امریکہ سے تعلقات کی (ownershipا)ذمہ داری نہیں لی۔ جس کی وجہ سے ریمنڈ ڈیوس کیس کے بعد تعلقات ایک دم خراب ہوئے۔ پاکستان میں عوامی رائے اہم تھی لیکن پاکستانی حکومت اور فوج کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عوامی رائے کو مثبت انداز میں ہموار کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔‘‘
ولی نصر نے اپنی کتاب میں افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی حکمت عملی کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ امریکی محکمہ ِخارجہ کے مقابلے میں فوجی قیادت کی رائے کو زیادہ اہم سمجھا گیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کی طرح اگر امریکہ میں بھی فوج ہی تمام معاملات کنٹرول کرتی ہے تو دونوں ملکوں میں فرق کہاں ہوا؟ ، ولی نصر کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں خارجہ پالیسی پر فوج کے کنٹرول کا لیول مختلف ہے۔ امریکہ میں سویلین حکومت ہی پالیسی بناتی ہے لیکن فوج کا نکتہِ نظر حالیہ دنوں میں ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے ، تاہم پاکستان میں بھی سویلین حکومت کو خارجہ پالیسی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
’’میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں سویلین حکومتیں اتنی بے بس ہیں، جتنا بظاہر سمجھا جاتا ہے ۔ میں اسے درست توجیہہ نہیں سمجھتا۔ پاکستان میں حکومت کو خارجہ پالیسی میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ نئی پاکستانی حکومت امریکہ سمیت دوسرے ملکوں سے تعلقات بنانے کے لئے کیا کرتی ہے۔‘‘
ولی نصر نے خدشہ ظاہر کیا کہ دو ہزار چودہ کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کے امکانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ ایسی صورتحال کو کنٹرول کرنے والے سیاسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور ہیں۔
ولی نصر کا کہنا تھا کہ پاک افغان خطے کے لئے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی تبھی آسکتی ہے، اگر کسی وجہ سے امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے کوئی مشکل صورتحال پیدا ہو جائے۔