بائیڈن انتظامیہ نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کی حکومت کے تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر کے فنڈز منجمد کر دیے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ میں منگل کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ وزیر خزانہ جینٹ یلین اور غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول کے دفتر کے عہدے داروں نے کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کے حکام بھی اس فیصلے میں شامل تھے، جب کہ وائٹ ہاؤس اس صورت حال کی نگرانی کر رہا تھا۔
انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "مرکزی بینک میں افغان حکومت کے اثاثوں کو، جو امریکہ میں موجود ہیں، طالبان کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیا جائے گا"۔
اخبار کے مطابق یہ فیصلہ ان اہم ترین متوقع فیصلوں میں سے ایک ہے جس کا سامنا بائیڈن انتظامیہ کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اس ملک کی معیشت کے بارے میں کرنا ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کو فنڈز منجمد کرنے کے لیے کسی نئے اختیار کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پہلے ہی طالبان پر پابندیاں عائد ہیں۔
بلوم برگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فنڈزتک رسائی روکنے کے لیے واشنگٹن نے کابل کو نقد رقوم کی فراہمی روک دی ہے جس کا اثر وہاں کی معیشت پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔
افغانستان کے مرکزی بینک 'دا افغان بینک' ڈی اے بی، کے قائم مقام سربراہ اجمل احمدی نے اپنی ٹوئٹس میں بتایا ہے کہ انہیں جمعہ کے روز معلوم ہوا تھا کہ واشنگٹن ڈالروں کی فراہمی روک رہا ہے تاکہ طالبان فنڈز تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔
افغانستان کی حکومت کے فنڈز منجمد ہونے سے ملکی کرنسی"افغانی" پر دباؤ آ سکتا ہے۔ طالبان کے قبضے کے بعد منگل کے روز ڈالر کے مقابلے میں افغانی کی قدر میں 4 اعشاریہ 6 فی صد کمی ہوئی۔
بلوم برگ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانی کی قدر مسلسل چار روز سے گر رہی ہے۔
افغانستان کے مرکزی بینک کے قائم مقام سربراہ اجمل احمدی نے اپنی سلسلے وار ٹوئٹس میں کہا ہے کہ انہیں فنڈز کی نئی رسد آنے کی توقع نہیں ہے، کیونکہ بقول ان کے، ہمارے پارٹنرز کو پتا ہے کہ کابل میں کیا ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ طالبان پر پابندیاں عائد ہیں اور کسی ایسے منظرنامے کی توقع نہیں ہے جس میں طالبان کو ان فنڈز تک رسائی دے دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ افغانستان کے بینکوں نے اپنے صارفین کو بتا دیا ہو گا کہ وہ ان کے ڈالر واپس نہیں کر سکتے، کیونکہ مرکزی بینک سے انہیں ڈالر فراہم نہیں ہو رہے۔ اس لیے نہیں کہ فنڈ چوری ہو گئے ہیں بلکہ اس لیے کہ بیرونی ملکوں نے انہیں منجمد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے فوجی فتح تو حاصل کر لی ہے لیکن اب حکومت کرنے کا معاملہ ہے اور فنڈز کے بغیر یہ آسان نہیں ہو گا۔
SEE ALSO: طالبان کی واٹس ایپ ہیلپ لائن بند، طالبان کی ’آزادیٴ اظہار کے خلاف کارروائی‘ پر تنقیدورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان کی معیشت میں غیر ملکی فنڈز کا حصہ 43 فی صد تھا۔
اجمل احمدی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ غیرملکی فنڈز کےرکنے سے ملکی کرنسی کی قدر میں کمی ہو گی جس سے افراط زر اور مہنگائی بڑھے گی اور ایک غریب ملک میں غریب کے لیے زندگی گزارنا مزید مشکل ہو جائے گا کیونکہ کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو جائیں گی۔