افغانستان میں تعینات امریکہ کے ایک اعلیٰ جنرل نے کہا ہے کہ حال ہی میں طالبان کے مالی وسائل کے ذرائع کو روکنے کے لیے کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں کے دوران جنوبی صوبے ہلمند میں پانچ کروڑ ڈالر مالیت کی منشیات کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
دنیا کی افیون کا 85 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ کی فوج کے اندازوں کے مطابق طالبان کی مالی ضروریات کا 60 فیصد منشیات سے حاصل ہونے والی آمدن سے پورا کیا جاتا ہے۔
جنرل جان نکلسن نے کہا کہ " گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم نے ہلمند میں پانچ کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات کو تباہ کر دیا۔ یہ طالبان کے مالی وسائل کا ایک بڑا ذریعہ تھا اور طالبان کے منشیات کے( غیر قانونی ) کاروبار سے منسلک گروہ یہ جانتے ہیں کہ وہ ہماری نظر میں ہیں اور ہم ان کا پیچھا کریں گے۔"
جنرل نکلسن افغانستان میں تعینات امریکی دستوں اور نیٹو کے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کی کمانڈ کر رہے ہیں۔
انسداد منشیات کے لیے 19 نومبر کو شروع ہونے والی مشترکہ کارروائیوں کے دوران اب تک منیشات کے کئی کارخانوں اور لیبارٹریوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ نکلسن نے اس وقت کہا تھا کہ اگست میں صدر ٹرمپ کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کے تحت دہشت گردوں کے مالی وسائل کے ذرائع ختم کرنے کے لیے یہ کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔
ہلمند افغانستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں وسیع علاقے پر پوست کاشت کی جاتی ہے اور شورش کے شکار اس صوبے کے کئی اضلاع پر یا تو طالبان کا کنٹرول ہے یا وہ ان کے اثر و رسوخ میں ہیں۔
تاہم طالبان عسکریت پسند منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب افغانستان پر ان کی عملداری تھی تو ان کی کوششوں سے اس وقت پوست کی کاشت میں تاریخی کمی واقع ہوئی تھی۔
اگرچہ امریکہ افغانستان سے منشیات کے خاتمے کے لیے 2002ء سے اب تک تقریباً آٹھ ارب 60 کروڑ ڈالرخرچ کرچکا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی پیداوار تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات اور جرائم کے گزشتہ مہینے جاری ہونے والے ایک سروے میں انکشاف کیا گیا کہ افغانستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں2017ء میں منشیات کی پیداوار دوگنا ہو کر 9,000 ٹن تک پہنچ گئی ہے اور جس علاقے میں یہ کاشت کی جارہی ہے اس میں بھی 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
منشیات کی غیر قانونی تجارت کی وجہ سے سرکاری سطح پر بد عنوانی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس سے افغانستان میں قانون کی عمل داری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ منشیات کی تجارت سے وابستہ قبائلی جنگجو سردار اپنے غیر قانونی کاروبار کے تحفظ کے لیے طالبان کو ہتھیار اور مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔
طالبان کا تقریباً 40 فیصد افغان علاقے پر کنٹرول ہے وہ ان علاقوں سے منشیات کی اسمگلنگ پر ٹیکس لگا کر اپنے لیے مالی وسائل حاصل کرتے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے ملک میں شورش بڑھانے میں" ہیروئین ایک اہم عنصر ہے۔"