امریکی جنرل کی2025 میں چین کے ساتھ لڑائی کی پیش گوئی

مائیکل منیہن، جو اب یو ایس ایئر فورس کے جنرل ہیں، صدر براک اوباما کے ساتھ ایئر فورس ون میں سوار ہونے کے لیے، پیر، 4 جون، 2012 کو اینڈریوز ایئر فورس بیس پر۔ فوٹو اے پی

امریکی فضائیہ کے ایک جنرل کی جانب سے 2025 میں چین کے ساتھ جنگ کی پیشن گوئی کرنے والا ایک متنازعہ میمو امریکہ کے دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو دیکھنے کے انداز میں سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق ظاہر کرتا ہے۔

اس میمو میں، جو ہفتے کے آخر میں آن لائن گردش کرنا شروع ہوا، جنرل مائیکل منیہن نے ایک اہم بیان کے ساتھ آغاز اس طرح کیا، ’’مجھے امید ہے کہ میں غلط ہوں۔(تاہم)میری چھٹی حس مجھے بتاتی ہے کہ 2025 میں ہماری لڑائی ہو گی۔‘‘

منیہن ، ایئر فورس کی ایئر موبلٹی کمانڈ کے انچارج ہیں، جو لاجسٹکس پر مرکوز 5,000 افراد پر مشتمل یونٹ ہے۔وہ امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کی اپنی پیشین گوئی کے لیے اس مبہم دعوے کے علاوہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتےکہ امریکہ اور تائیوان میں ہونے والے آئندہ انتخابات، بیجنگ کو اس بات کاایک موقع فراہم کریں گے کہ وہ خود مختار جزیرے کو اپنے ساتھ دوبارہ ملانے کی کوشش کرے۔

چین طویل عرصے سے دعویٰ کرتا رہا ہے کہ تائیوان چینی سرزمین کا حصہ ہے۔

SEE ALSO: چین کے درجنوں جنگی طیاروں کی تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی

منیہن نے جوایک سی ون تھرٹی کے ایک سابق پائلٹ ہیں، اور جنہوں نے امریکی فوج میں دیگر اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں ستمبر 2019 سے اگست 2021 تک یو ایس انڈو پیسفک کمانڈ کے ڈپٹی کمانڈرکا عہدہ بھی شامل ہے، اس لیے وہ چینی فوج کے بارے میں گہری سمجھ رکھتے ہیں۔

سویلین ملٹری تقسیم

منیہن کے تبصرے سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن سمیت بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ داروں کے بیانات سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، آسٹن نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ امریکہ نے تائیوان کے خلاف چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کو نوٹ کیا ہے، لیکن انہوں نے قریبی مدت کے حملے کے امکان کو زیادہ اہم طور پر بیان نہیں کیا۔

’’ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک نیا معمول قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ قریب ہے یا نہیں، مجھے اس پر سنجیدگی سے شک ہے‘‘۔

وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک بیان میں، پینٹاگان کے پریس سیکرٹری ایئر فورس بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر نے کہا ہے کہ قومی دفاعی حکمت عملی واضح کرتی ہے کہ چین محکمہ دفاع کے لیے ایک چیلنج ہے اور ہماری توجہ ایک پر امن، آزاد اور کھلے انڈو د پیسیفک کو برقرار رکھنے کے لیے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مرکوز ہے۔

خاص طور پر منیہن میمو کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ، پینٹاگان نے محکمہ دفاع کے ایک اہل کار سے منسوب کیا گیاایک بیان بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ تبصرے چین کے بارے میں محکمے کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔‘‘

بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں فارن پالیسی میں ریسرچ کے ڈائریکٹر مائیکل او ہینلون نے وی او اے کو بتایا کہ ان کے خیال میں منیہن میمو ایک سنگین غلطی تھی، اور جس پر ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی طرف سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ ڈیٹرنس کی اہمیت کو جنگ کے امکانات کے ساتھ اس طرح سے جوڑتا ہے جومیرے خیال میں، بہت ہی غیر دانشمندانہ اور ممکنہ طور پر خطرناک ہے۔‘‘

چینی وزارت خارجہ کا تبصرہ

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ کو پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں جنرل کےبیان پر ردعمل کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے۔

ترجمان نےکہا۔ ’’"تائیوان کے معاملے کو حل کرنا چینیوں کا معاملہ ہے۔ آبنائے تائیوان میں کشیدگی کے نئے دور کی اصل وجہ [تائیوان کے] عہدہ داروں کی جانب سے 'تائیوان کی آزادی کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنے کا مسلسل عمل اور امریکہ میں کچھ لوگوں کی جانب سے چین پر قابو پانے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے کا ایجنڈا ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا، ’’ہم امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک چین کے اصول کی پابندی کرے‘‘۔

(راب گیرور، وی او اے نیوز)