امریکی جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں 'القاعدہ' کے جنگجووں کی کل تعداد 100 سے بھی کم رہ گئی ہے جو ان کے بقول اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
واشنگٹن —
امریکہ کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ 'القاعدہ' اب بھی افغانستان میں موجود ہے جہاں سے آئندہ برس غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے ڈپٹی آپریشنز چیف میجر جنرل جوزف آسٹرمن کے بقول 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسندوں کی ایک مختصر سی تعداد افغانستان کے دشوار گزار پہاڑی صوبے نورستان میں پناہ لیے ہوئے ہے جہاں کے جنگلات اور گھاٹیوں میں انہیں قدرتی پناہ گاہیں میسر ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکی جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں 'القاعدہ' کے جنگجووں کی کل تعداد 100 سے بھی کم رہ گئی ہے جو ان کے بقول اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
جنرل جوزف کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی ملک میں 'القاعدہ' کے جنگجووں کی سرگرمیاں برقرار رہنے کا امکان ہے لیکن وہ اس نوعیت کے سنگین حملے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں جو افغانستان پر ا مریکی حملے کا سبب بنے تھے۔
نیٹو اور افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی سرحد سے متصل اور ہندوکش پہاڑی سلسلے سے گھرے ہوئے افغان صوبے نورستان میں 'القاعدہ' اور اس سے منسلک جنگجو خاصے سرگرم ہیں جو یہاں موجود اپنی پناہ گاہوں کو پڑوسی افغان صوبوں ننگر ہار اور لغمان پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انتہائی دشوار گزار تصور کیے جانے والے اس افغان صوبے میں سڑکوں سمیت بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ صوبے کی زیادہ تر آبادی دیہات میں مقیم ہے۔
نیٹو فورسز اکثر و بیشتر اس صوبے میں القاعدہ جنگجووں اور ان کے معاونین کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج زیادہ تر اس صوبے میں کوئی بڑی کاروائی کرنے سے احتراض برتتی آئی ہیں جب کہ یہاں ان کی موجودگی بھی واجبی سی ہے۔
رواں برس مئی میں افغان فوج کے کمانڈروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صوبے کے بعض ضلعے مکمل طور پر شدت پسندوں کے قبضے میں جاسکتے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ' کے جنگجو نورستان کے مقامی طالبان اور گلبدین حکمت یار کی 'حزبِ اسلامی' جیسے تنظیموں کے جنگجووں کے ساتھ اس حد تک گھل مل گئے ہیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی۔ان کے بقول ان جنگجووں نے مقامی افراد کے ساتھ رشتے داریاں قائم کرلی ہیں جس کے باعث انہیں مقامی حمایت بھی میسر ہے۔
افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے ڈپٹی آپریشنز چیف میجر جنرل جوزف آسٹرمن کے بقول 'القاعدہ' سے منسلک شدت پسندوں کی ایک مختصر سی تعداد افغانستان کے دشوار گزار پہاڑی صوبے نورستان میں پناہ لیے ہوئے ہے جہاں کے جنگلات اور گھاٹیوں میں انہیں قدرتی پناہ گاہیں میسر ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ساتھ ایک انٹرویو میں امریکی جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں 'القاعدہ' کے جنگجووں کی کل تعداد 100 سے بھی کم رہ گئی ہے جو ان کے بقول اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
جنرل جوزف کا کہنا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی ملک میں 'القاعدہ' کے جنگجووں کی سرگرمیاں برقرار رہنے کا امکان ہے لیکن وہ اس نوعیت کے سنگین حملے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں جو افغانستان پر ا مریکی حملے کا سبب بنے تھے۔
نیٹو اور افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی سرحد سے متصل اور ہندوکش پہاڑی سلسلے سے گھرے ہوئے افغان صوبے نورستان میں 'القاعدہ' اور اس سے منسلک جنگجو خاصے سرگرم ہیں جو یہاں موجود اپنی پناہ گاہوں کو پڑوسی افغان صوبوں ننگر ہار اور لغمان پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انتہائی دشوار گزار تصور کیے جانے والے اس افغان صوبے میں سڑکوں سمیت بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ صوبے کی زیادہ تر آبادی دیہات میں مقیم ہے۔
نیٹو فورسز اکثر و بیشتر اس صوبے میں القاعدہ جنگجووں اور ان کے معاونین کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج زیادہ تر اس صوبے میں کوئی بڑی کاروائی کرنے سے احتراض برتتی آئی ہیں جب کہ یہاں ان کی موجودگی بھی واجبی سی ہے۔
رواں برس مئی میں افغان فوج کے کمانڈروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صوبے کے بعض ضلعے مکمل طور پر شدت پسندوں کے قبضے میں جاسکتے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ' کے جنگجو نورستان کے مقامی طالبان اور گلبدین حکمت یار کی 'حزبِ اسلامی' جیسے تنظیموں کے جنگجووں کے ساتھ اس حد تک گھل مل گئے ہیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں رہی۔ان کے بقول ان جنگجووں نے مقامی افراد کے ساتھ رشتے داریاں قائم کرلی ہیں جس کے باعث انہیں مقامی حمایت بھی میسر ہے۔