امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی منظوری دے دی ہے۔ صدر پر عوام کو بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔
صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے ایوان میں پیش کردہ قرار داد پر بدھ کو ووٹنگ ہوئی۔ اس موقع پر 232 ارکان نے صدر کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 197 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔
صدر کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے والوں میں ری پبلکن پارٹی کے دس ارکان بھی شامل ہیں۔
امریکہ کی 245 سالہ تاریخ میں صدر ٹرمپ واحد صدر ہیں جن کے خلاف ایوانِ نمائندگان نے دوسری مرتبہ مواخذے کی قرارداد منظور کی ہے۔
صدر کے مواخذے کی قرار داد ایسے موقع پر منظور ہوئی ہے جب ان کی مدت صدارت مکمل ہونے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت باقی ہے۔
SEE ALSO: مواخذے کے مطالبات میں شدت، صدر ٹرمپ انتقالِ اقتدار پر رضا مندیاد رہے کہ امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی کانگریس کی عمارت 'کیپٹل ہل' پر 6 جنوری کو صدر ٹرمپ کے حامیوں نے اُس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
مظاہرین نے کیپٹل ہل میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ ہنگامہ آرائی کے دوران خاتون اور پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کیپٹل ہل پر حملے سے قبل مظاہرین وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہوئے تھے جہاں صدر ٹرمپ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے طاقت کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے بعض رہنما کیپٹل ہل پر حملے کا ذمہ دار صدر ٹرمپ کے ٹھہراتے ہیں اور اسی الزام کی بنا پر ایوانِ نمائندگان نے بدھ کو دوسری مرتبہ ان کے مواخذے کی منظوری دی ہے۔
نومنتخب صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ کانگریس مواخذے کی کارروائی میں نہ صرف اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے گی بلکہ وہ ملک کے دیگر معاملات پر بھی کام کرے گی۔
ایوان نمائندگان میں 2019 کے آخر میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی شروع ہوئی تھی۔ صدر پر اپنے مخالف جو بائیڈن کے خلاف بیرونِ ملک سے مدد مانگنے کا الزام تھا۔ ایوان نے ان کے مواخذے کی منظوری دی تھی۔ تاہم ری پبلکن اکثریت والی سینیٹ نے 2020 کے اوائل میں صدر کو اس الزام سے بری کر دیا تھا۔
ایوانِ نمائندگان میں ایک مرتبہ پھر صدر کے مواخذے کے بعد ٹرمپ کو سینیٹ میں ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینیٹ میں صدر کو مجرم ٹھہرانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی۔ اگر صدر کا سینیٹ سے بھی مواخذہ ہو جاتا ہے تو وہ مستقبل میں کوئی وفاقی عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب سینیٹ میں اکثریتی جماعت ری پبلکن کے رہنما مچ مکونل نے ایک مرتبہ پھر صدر کے خلاف فوری طور پر ٹرائل شروع کرنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
اُن کے بقول نو منتخب صدر جو بائیڈن کی آئندہ ہفتے حلف برداری سے قبل موجودہ صدر کا سینیٹ میں ٹرائل اور اس کا نتیجہ آنا ممکن نہیں۔
SEE ALSO: کیپیٹل ہل پر حملہ: 170 ملوث افراد پر جرائم کے مقدماتانہوں نے کہا کہ اگر سینیٹ میں صدر کا ٹرائل شروع ہو بھی جائے تو صدر ٹرمپ کی مدت مکمل ہونے تک اس کا نتیجہ نہیں آسکتا۔
ادھر سینیٹ میں اقلیتی جماعت ڈیموکریٹ کے سربراہ چک شومر کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف ٹرائل رواں ہفتے یا آئندہ ہفتے شروع ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو بڑے جرائم اور بدانتظامی کے الزام میں سزا دینے کے لیے سینیٹ میں رائے شماری ضرور ہو گی۔
یاد رہے کہ 20 جنوری کو نو منتخب صدر جو بائیڈن ملک کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے جس کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹ میں سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی اور چک شومر سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے سربراہ بھی بن جائیں گے۔