انسانوں کی اسمگلنگ، عزت نفس پہ دھبہ: کیری

اِس ’جدید دور کی غلامی‘ میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ مظالم برتے جاتے ہیں، جنھیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے؛ جب کہ دنیا بھر میں اگر ایسے بدنصیبوں کو کوئی روزگار ملتا بھی ہے تو مرد، خواتین اور بچوں کو کم اجرت والی جبری مشقت میں جھونک دیا جاتا ہے

امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ وسیع پیمانے پر جاری انسانی اسمگلنگ نے عالمی معیشت کے نئے دریچے ضرور کھولے ہیں، لیکن محنت کے شعبے پر نظرداری پر مامور اہل کاروں اور جسم فروشی کے ’بے اصول‘ تاجروں کے ہاتھوں لاکھوں لوگ مجبور ہیں؛ اور، یہ کہ، ’یہ صورت حال، دنیا کے سارے ملکوں میں جاری ہے‘۔

انسانی حقوق کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ میں، محکمہٴخارجہ نے صورت حال کو ’جدید دور کی غلامی‘ سے تعبیر کیا ہے، جس میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ مظالم برتے جاتے ہیں، جنھیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے؛ جب کہ دنیا بھر میں اگر ایسے بدنصیبوں کو کوئی روزگار کا موقع ملتا بھی ہے، تو مرد، خواتین اور بچوں کو کم اجرت والی جبری مشقت میں جھونک دیا جاتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ انسانی اسمگلنگ اور جدید دور کی یہ غلامی ایسی صنعت ہے، جس کی سالانہ مالیت 150 ارب ڈالر بنتی ہے۔


اُنھوں نے کہا کہ اس سال کی رپورٹ اقدام کی متقاضی ہے اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے قوانین کو مضبوط اور اِن پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

کیری نے کہا ہے کہ ہر قوم کی طرح، زبردستی مشقت کا کام لینے اور جسم فروشی کی غرض سے اسمگلنگ کے خلاف، امریکہ میں بھی ’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بہتر اقدام کریں‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی اسمگلنگ کی کوئی سرحد نہیں، اور اس میں ملوث لوگ کسی قانون کی پاسداری نہیں کرتے‘۔

بتایا گیا ہے کہ یہ صورت حال محنت کےباضابطہ اور زیر زمین دونوں سطح پر، اور قانونی اور ناجائز صنعتوں میں موجود ہے، جس میں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور کارکن سبھی شامل ہیں، جن کا تعلق مختلف نوعیت کے تعلیمی بیک گراؤنڈ سے ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’حالانکہ انسانی اسمگلنگ متعدد تجارتوں میں دیکھی جاتی ہے۔ تاہم، اُن صنعتوں میں خدشات زیادہ ہیں جو کم پیشہ ور اور غیر پیشہ ور محنت کشوں کی خدمات حاصل کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔ اِن میں ایسی ملازمتیں شامل ہیں جو اخلاق سے گِری ہوئی، خطرناک اور مشکل تر ہوتی ہیں، جِن میں کم اجرت دی جاتی ہے اور جنھیں ابتر خیال کیا جاتا ہے؛ جِن میں سماجی طور پر محروم لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے، جِن میں پناہ گزیں، اپاہج اور اقلیتیں شامل ہیں‘۔

محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ قرضہ دینے کا حربہ ایسا ہے جس سےکارکنان کا استحصال عام بات ہے۔ اس میں روزگار پر رکھے گئے نئے کارکنوں کو بڑی رقوم دے کر جھانسا دیا جاتا ہے، جس کی ادائگی کرتے کرتے وہ اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں، جس کا بہانہ بھرتی اور روزگار بنتا ہے۔

اس کے بعد، یہ کارکن اپنی زندگیا بتِا دیتے ہیں، جنھیں برائے نام اجرت ملتی ہے یا پھر کچھ بھی نہیں ملتا، اور وہ کبھی اپنے ذمے کی رقوم لوٹا نہیں پاتے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارکنوں کا استحصال عمومی طور پر جسم فروشی کے ضمرے میں آتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین جنھیں سنسان مقامات پر روزگار کی پیش کش ہوتی ہے، جیسے خوراک کی خدمات یا خردہ فروشی کا کاروبار، معدنیات کی تلاش، لکڑیاں کاٹنا اور زرعی کیمپوں کے قریب مقامات۔۔۔ عام طور پر جسم فروشی پر مجبور ہوتی ہیں، جب کہ وہ بھرتی پر اٹھنے والی رقوم کی ادائگی نہیں کر پاتیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’جدید دور کی یہ غلامی خلا میں نہیں پنپتی‘۔

بقول اُن کے، ’دراصل یہ اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا حصہ ہے، جس میں انتہائی غربت کی صورت حال، خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک، بدعنوانی اور عمل داری کی دیگر ناکامیاں، سماجی میڈیا کا غلط استعمال اور کثیر قومی منظم جرائم پیشہ حضرات کی ریشہ دوانیاں سب شامل ہیں‘۔

رپورٹ میں دنیا بھر کی 188 حکومتوں کی درجہ بندی دکھائی گئی ہے کہ اِن میں انسانی اسمگلنگ سے کس طرح نبردآزما ہوا جاتا ہے۔

محکمہٴخارجہ نے کیوبا کا درجہ بدل دیا ہے، جن کے ساتھ پانچ عشروں کی مخاصمت کے بعد پھر سے سفارتی تعلقات استوار ہوئے ہیں۔ کیوبا کو ’واچ لسٹ‘ پر رکھا گیا ہے، یہ دیکھنے کے لیے آیا وہ اپنا حقوق انسانی کا ریکارڈ بہتر کرتا ہے۔ رپورٹ میں ملائیشیا کو بھی بہتر درجہ دیا گیا ہے، جس کا بھی ’واچ لسٹ‘ میں شمار کیا گیا ہے، جو ’پیسیفک رِم‘ میں تجارتی سمجھوتے کا ممکنہ رکن ہے۔