امریکی قانون سازوں نے ایک ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کے نتیجے میں اس طریقہ کار کا خاتمہ ہوجائے گا جسے عرف عام میں ’ویڈو پینلٹی‘ یا بیوہ کی سزا کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ایسے غیر ملکی افراد کے گرین کارڈ کی درخواستیں مسترد کردی جاتی تھیں جن کے امریکی شریک حیات، اپنی شادی کے دو سال کے اندر انتقال کر جاتے تھے۔
تارکین وطن کے حقوق کی تنظیموں نے اس ووٹنگ کو سراہا ہے۔
اوسریٹا رابن سن کی عمر اس وقت صرف 24 سال تھی جب وہ جمیکا سے امریکہ آئیں تھیں۔ ایک ہوٹل میں ملازمت کے دوران ان کی ملاقات لوئس رابن سن سے ہوئی، دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے اور ان کی شادی ہوگئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک دن اس نے مجھے شادی کی پیش کش کی، جسے میں نے قبول کرلیا اور پھر ایک دن ہماری شادی ہوگئی۔
آٹھ ماہ بعد، ایک روز اس کا شوہر کشتی کے ایک حادثے میں دس دوسرے افراد کے ساتھ ہلاک ہوگیا۔ اوسریٹا کہتی ہیں کہ یہ حادثہ میرے کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ ایک شخص جس نے مجھ سے شادی کی تھی، میں اسے منوں مٹی کے نیچے دبانے جارہی تھی۔
ابھی وہ اپنے شوہر کے صدمے سے نکل ہی نہیں پائی تھی کہ اسے ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور وہ تھا گرین کارڈ کے لیے اس کی درخواست کا مسترد ہونا۔ یہ درخواست اس کے آنجہانی شوہر نے اس کے لیے دائر کی تھی۔ اس سلسلے میں قانونی تقاضا یہ تھا کہ شریک حیات کے لیے گرین کارڈ کی صرف ایسی درخواستیں قابل غور تھیں جن کی شادی کو کم ازکم دوسال ہوچکے ہیں۔
اوسریٹا رابن سن نے اپنے وکیل جیفری فین بلوم کے ذریعے ہوم لینڈ سکیورٹی کے فیصلے کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ فین بلوم کہتے ہیں کہ اس فیصلے سےان کے موکل کی امریکہ میں قانونی حیثیت ختم ہوگئی تھی تاہم خوش قسمتی سے ابھی اس کے خلاف ملک سے بے دخلی کی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی۔ قانونی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب وہ ملازمت نہیں کرسکتی تھی، سفر نہیں کرسکتی تھی، ڈرائیونگ لائسنس نہیں لے سکتی تھی۔ اس کے لیے زندگی بے حد دشوار ہوگئی تھی۔
مختلف عدالتوں میں پانچ برس تک لگاتار مقدموں اور اپیلوں کے بعد بالآخر رابن سن نے مقدمہ جیت لیا۔ اکتوبر میں امریکی سینٹ نے اس قانون کی منظوری دے دی جس کے ذریعے ’ بیوا کی سزا‘ کا طریقہ کار کا خاتمہ ہوگیا۔ اپنے شریک حیات سے محروم ہونے والی تارکین وطن کی بے دخلی کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ اس قانون سے اپنے شریک حیات سے بچھڑنے والے 200 سے زیادہ افراد کو فائدہ پہنچے گا جن کی اس ملک میں آمد قانونی طریقے سے ہوئی تھی، مگر انہیں اپنے شریک حیات کی وفات کے باعث بے دخلی کی کارروائی کا سامنا تھا۔
اوسریٹا رابن سن کہتی ہیں کہ میں بہت خوش ہوں، بہت زیادہ خوش، لیکن خوشی کے احساسات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے کیونکہ اب میرے سامنے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اب کیا کرنا ہے۔
وکیل جیفری فین بلوم کہتے ہیں کہ اس قانون کی منظوری کے بعد جن درخواستوں کو مسترد کردیا گیاتھا، دوبارہ کھل جائیں گی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد انہیں اس ملک میں قانونی حیثیت مل جائے گی۔
اوسریٹا رابن سن نے اپنے اس حق کے لیے ایک طویل قانونی جنگ لڑی ہے اور آخرکار اسے جیتنے میں کامیاب رہی ہیں۔ انہیں اب امیگریشن کے دفتر کی جانب سے انٹرویو کے لیے بلایا گیا ہے جہاں نئے قانون کی روشنی میں گرین کارڈ کے لیے ان کی درخواست پر غور کیا جائے گا۔