امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی 'سی آئی اے ' کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام و عراق میں انتہا پسند گروپ داعش کے زیر کنٹرول علاقے سکڑنے کے باوجود اس گروپ کا اثر جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔
جمعرات کو امریکہ میں سکیورٹی سے متعلق ہونے والے ایک سربراہی اجلاس کے موقع پر ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر جان برینن نے کہا کہ "میرے خیال میں داعش عراق اور شام میں کافی دیر تک موجود رہے گا"۔
جان برینن نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ عراق و شام میں موجود غیر ملکی جنگجوؤں کے اپنے ملکوں میں واپسی کے بعد ایک طویل عرصے تک ان ملکوں کو ان کے اثرات کا سامنا رہے گا۔
"ان میں سے بعض کو (معاشرتی طور پر) بحال کیا جاسکتا ہے اور ان کے خیال میں آسکتا ہے کہ وہ غلط راستے پر تھے ۔ میرے خیال میں ان میں سے کئی ایک آنے والوں کئی سالوں تک امریکہ اور دیگر حکومتوں کے لیے ایک چیلنج رہیں گے۔"
انٹلیجنس کے عہدیداروں کا ماننا ہے کہ داعش کو ختم کرنے کے ممکنہ طور پر وسیع مضمرات ہو سکتے ہیں اور یہ قانون کے نفاذ کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
کانفرنس میں شریک عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر انٹلیجنس معلومات کا تبادلہ انسداد دہشت گردی کی ایک اہم حکمت عملی ہو سکتی ہے اور ان کے بقول تجربے نے یہی ثابت کیا ہے۔
برنین نے کہا کہ "اس حوالے سے وسیع سطح پر کوشش کی جا رہی ہے کہ کئی دیگر ملکوں کے انٹلیجنس کے اداروں کو بھی اس میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ (داعش کا) مسئلہ میرے خیال میں القاعدہ کے مقابلے میں دنیا کے ایک بڑے حصے پر اثر انداز ہو رہا ہے۔"
برینن سے خصوصی طور پر شام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بطور ’سی آئی اے‘ کے ڈائریکٹر کے انہیں جن معاملات کا سامنا رہا ہے ان میں سے اس ملک کو سب سے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگرچہ ہم شام میں داعش کی کچھ جنگی پیش قدمیوں کو پلٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی اصلاحات، معاشی اصلاحات، معاشرتی اور مذہبی کشمکش اور فرقہ وارانہ تنازعات کے پیش نظر چینلجز میں اضافہ ہو گا"۔