سنہ 2012 کے دوران میں امریکہ نے ان یمنی شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر درجنوں ڈرون حملے کیے لیکن ایک ہفتے میں چار حملے ہونا خاصا غیر معمولی ہے۔
واشنگٹن —
یمنی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں موجود شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' کے مشتبہ ٹھکانوں پر مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام کے مطابق صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں 'القاعدہ' کے مبینہ ٹھکانوں پر چار امریکی ڈرون حملے ہوئے ہیں۔
حکام نے ہفتے کو وسطی صوبے بیدا میں ہونے والے حملے کی بھی تصدیق کردی ہے جس میں امریکی ڈرون سے فائر کیے جانے والے میزائل نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا تھا جس میں مبینہ طور پر 'القاعدہ' کے ارکان سوار تھے۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی میں صالح محمد العامری نامی 'القاعدہ' کا ایک اہم رکن بھی سوار تھا جو حملے میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت مارا گیا۔
اس سے قبل جمعے کو یمن کے مشرقی صوبے حضرِ موت میں امریکی ڈرون حملے میں 'القاعدہ' کے دو شدت پسند مارے گئے تھے جب کہ حکام نے 24 دسمبر کو کیے جا نے والے دو مختلف حملوں میں بھی چھ شدت پسندوں کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی۔
واضح رہے کہ امریکی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور اس کی افواج گزشتہ کئی برسوں سے علاقے میں 'القاعدہ' کی ایک مقامی شاخ کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
سنہ 2012 کے دوران میں امریکہ نے ان یمنی شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر درجنوں ڈرون حملے کیے لیکن ایک ہفتے میں چار حملے ہونا خاصا غیر معمولی ہے۔
یمن، سعودی عرب جیسے تیل برآمد کرنے والے بڑے ملک کا پڑوسی ہے جب کہ کئی اہم بحری گزرگاہیں اس کے ساحلوں کے نزدیک سے گزرتی ہیں۔
اس اہم جغرافیائی محل و وقوع کے باعث یمن کی سیکیورٹی کی صورتِ حال کے بارے میں اس کے پڑوسی خلیجی ملک اور امریکہ خاصی تشویش کا شکار رہتے ہیں۔
یمن کےجنوبی علاقوں میں القاعدہ کی ایک مقامی شاخ خاصی سرگرم رہی ہے تاہم یمنی افواج کی کاروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں کےنتیجے میں شدت پسندوں کو اپنے زیرِ قبضہ کئی علاقوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔
لیکن اس کے باجود القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کی ملکی افواج اور سیکیورٹی تنصیبات پر حملوں کی صلاحیت برقرار ہے جس کا وہ وقتاً فوقتاً مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
حکام کے مطابق صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں 'القاعدہ' کے مبینہ ٹھکانوں پر چار امریکی ڈرون حملے ہوئے ہیں۔
حکام نے ہفتے کو وسطی صوبے بیدا میں ہونے والے حملے کی بھی تصدیق کردی ہے جس میں امریکی ڈرون سے فائر کیے جانے والے میزائل نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا تھا جس میں مبینہ طور پر 'القاعدہ' کے ارکان سوار تھے۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کا نشانہ بننے والی گاڑی میں صالح محمد العامری نامی 'القاعدہ' کا ایک اہم رکن بھی سوار تھا جو حملے میں اپنے دیگر ساتھیوں سمیت مارا گیا۔
اس سے قبل جمعے کو یمن کے مشرقی صوبے حضرِ موت میں امریکی ڈرون حملے میں 'القاعدہ' کے دو شدت پسند مارے گئے تھے جب کہ حکام نے 24 دسمبر کو کیے جا نے والے دو مختلف حملوں میں بھی چھ شدت پسندوں کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی۔
واضح رہے کہ امریکی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور اس کی افواج گزشتہ کئی برسوں سے علاقے میں 'القاعدہ' کی ایک مقامی شاخ کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
سنہ 2012 کے دوران میں امریکہ نے ان یمنی شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر درجنوں ڈرون حملے کیے لیکن ایک ہفتے میں چار حملے ہونا خاصا غیر معمولی ہے۔
یمن، سعودی عرب جیسے تیل برآمد کرنے والے بڑے ملک کا پڑوسی ہے جب کہ کئی اہم بحری گزرگاہیں اس کے ساحلوں کے نزدیک سے گزرتی ہیں۔
اس اہم جغرافیائی محل و وقوع کے باعث یمن کی سیکیورٹی کی صورتِ حال کے بارے میں اس کے پڑوسی خلیجی ملک اور امریکہ خاصی تشویش کا شکار رہتے ہیں۔
یمن کےجنوبی علاقوں میں القاعدہ کی ایک مقامی شاخ خاصی سرگرم رہی ہے تاہم یمنی افواج کی کاروائیوں اور امریکی ڈرون حملوں کےنتیجے میں شدت پسندوں کو اپنے زیرِ قبضہ کئی علاقوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔
لیکن اس کے باجود القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کی ملکی افواج اور سیکیورٹی تنصیبات پر حملوں کی صلاحیت برقرار ہے جس کا وہ وقتاً فوقتاً مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔