جان کیری نےکہا کہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنے والی عالمی طاقتیں ایران کےجوہری ہتھیاروں کے پروگرام کےبارے میں دباؤ اور مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کی حامی ہیں
واشنگٹن —
نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری ایران کے متنازع جوہری پروگرام کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنے پر تیار ہے، لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ ایران اِس تنازع کے بارے میں سنجیدہ مذاکرت پر رضامند ہو۔
کیری نے یہ بات جمعے کے روز دورے پر آئے ہوئے کینیڈا کے وزیر خارجہ، جان بیئرڈ کے ہمراہ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
کیری نےکہا کہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنےوالی عالمی طاقتیں ایران کےجوہری ہتھیاروں کے پروگرام کےبارے میں ’دباؤ اور مذاکرات‘ کو جاری رکھنے کی حامی ہیں۔
جان کیری نے زور دے کر کہا کہ، ’ہم اِس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔‘
اِس سلسلے میں، اُن کے بقول،’ہم دباؤ اور مکالمے کے دو رویہ مؤقف پر قائم رہیں گے‘۔
اُنھوں نےایران کو باور کرایا کہ سفارت کاری کی راہ ابھی تک کھلی ہوئی ہے، اور یہ کہ،’ ہم نے اِس بات سے اتفاق کرلیا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر اندر قزاقستان میں ایران سے پھر ملاقات کی جائے‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری اس بات کے لیے تیار ہے کہ معاملے کا معقول جواب دے، لیکن اِس کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایران اصل بات پر سنجیدہ گفتگو کے لیے تیار ہو، اور یہ کہ ایران واضح طور پر اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی تشویش کے معاملے کو سامنے رکھے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ اپنے آپ کو مزید تنہا کردے گا۔ اِس میں سے کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہوگا۔
ایران کہتا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام سختی سے پُرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن اُس نے بین الاقوامی جائزہ کاروں کو اپنی تنصیبات دکھانے کی اجازت نہیں دی۔
برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے ساتھ جرمنی، جس گروپ کو ’پی فائیو پلس ون‘ کا نام دیا جاتا ہے، 26فروری کو قزاقستان میں ایران کےعہدے داروں سے ملاقات کرنے والا ہے، جِس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تعطل کو حل کرنے کی ایک اور کوشش کرنا ہے۔
کیری نے یہ بات جمعے کے روز دورے پر آئے ہوئے کینیڈا کے وزیر خارجہ، جان بیئرڈ کے ہمراہ ایک مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
کیری نےکہا کہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنےوالی عالمی طاقتیں ایران کےجوہری ہتھیاروں کے پروگرام کےبارے میں ’دباؤ اور مذاکرات‘ کو جاری رکھنے کی حامی ہیں۔
جان کیری نے زور دے کر کہا کہ، ’ہم اِس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔‘
اِس سلسلے میں، اُن کے بقول،’ہم دباؤ اور مکالمے کے دو رویہ مؤقف پر قائم رہیں گے‘۔
اُنھوں نےایران کو باور کرایا کہ سفارت کاری کی راہ ابھی تک کھلی ہوئی ہے، اور یہ کہ،’ ہم نے اِس بات سے اتفاق کرلیا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر اندر قزاقستان میں ایران سے پھر ملاقات کی جائے‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری اس بات کے لیے تیار ہے کہ معاملے کا معقول جواب دے، لیکن اِس کے لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایران اصل بات پر سنجیدہ گفتگو کے لیے تیار ہو، اور یہ کہ ایران واضح طور پر اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی تشویش کے معاملے کو سامنے رکھے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر وہ اپنے آپ کو مزید تنہا کردے گا۔ اِس میں سے کسی ایک بات کا انتخاب کرنا ہوگا۔
ایران کہتا ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام سختی سے پُرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن اُس نے بین الاقوامی جائزہ کاروں کو اپنی تنصیبات دکھانے کی اجازت نہیں دی۔
برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے ساتھ جرمنی، جس گروپ کو ’پی فائیو پلس ون‘ کا نام دیا جاتا ہے، 26فروری کو قزاقستان میں ایران کےعہدے داروں سے ملاقات کرنے والا ہے، جِس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام پر جاری تعطل کو حل کرنے کی ایک اور کوشش کرنا ہے۔