ایران سے خطرہ، امریکی جنگی بحری بیڑہ مشرق وسطیٰ روانہ

خلیج فارس کی جانب روانہ کیا جانے والا امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ابراہام سے ایک طیارہ پرواز کر رہا ہے۔ فائل فوٹو۔

امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے متعدد دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کے بعد، امریکہ نے اپنا ایک طیارہ بردار جنگی بحری بیڑا مشرق وسطی روانہ کر دیا ہے۔

اتوار کو رات دیر گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں، جان بولٹن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ایران کو ایک صاف اور واضح پیغام بھیجنے کے لیے اٹھایا گیا ہے، تاکہ اسے معلوم ہو کہ امریکی مفادات یا اس کے اتحادیوں پر کسی حملے کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا، لیکن پاسداران انقلاب یا ایرانی افواج کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں، امریک اس کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

تاہم امریکی انتظامیہ نے، ایران کی جانب سے دھمکیوں کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔

اپریل میں جب، یو ایس ایس ابراہام لنکن نامی جنگی بحری بیڑے کو خلیج فارس کی جانب روانہ کیا گیا تھا تو اس پر بمبار طیارے، جنگی ہیلی کاپٹر، ڈِسٹرائیرزاور 6000 سے زیادہ سیلر موجود تھے۔

یورپ کے دورے پر جاتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ہمراہ جانے والے صحافیوں کے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ ایسا کیا ہوا تھا جس کے ردعمل میں امریکہ کو اپنا جنگی بیڑہ روانہ کرنا پڑا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام کافی عرصے سے زیر غور تھا، اور انتظامیہ ایک صاف اور واضح پیغام بھیجنا چاہتی تھی کہ ایران کی کسی طالع آزمائی کا کس طرح جواب دیا جائے گا۔

اس امریکی اقدام پر ایران نے ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

ایک ہفتہ قبل، ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جان بولٹن اور ان کے ہمراہ چند دیگر افراد سمیت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو پر محاذ آرائی کی سازش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

جواد ظریف نے سی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں بات عسکری اقدامات تک نہیں پہنچے گی، کیونکہ لوگوں میں جنگی محاذ آرائی کے بارے میں معقولیت پائی جاتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں امریکی انتظامیہ محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس کے لیے سخت چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ جو کوئی بھی اس کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اسے کامیابی حاصل نہ ہو۔

اوباما دور میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان اور آج کل نیو امریکہ فاؤنڈیشن سے وابستہ، نیڈ پرائس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران پر عائد پابندیوں کی نرمی کو ختم کرنا اور پھر پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے جیسے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو دیوار کے ساتھ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ ایران پر بھرپور دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے چاہتی ہے کہ ایران اپنے رویے میں تبدیلی لائے، جس میں دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی ترک کرنا اور بقول امریکہ، ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام شامل ہے، جسے امریکہ اپنے لیے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

پاسداران انقلاب کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے جواب میں، ایران نے امریکہ کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک اور اس کی افواج کو مشرق وسطی میں دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔

تاہم ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی اینڈ فارن پالیسی کے نائب صدر جیمز جے کارافانو نے امریکی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ عالمی مفادات اور ذمہ داریاں اٹھانے والی ایک قوت ہے۔

تاہم جان بولٹن کے اقدام سے بہت سے ملکوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

نئی دلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے وابستہ ہرش پانٹ کہتے ہیں کہ کسی ممکنہ جنگی محاذ آرائی کی صورت میں، اس کے اثرات نہ صرف دونوں فریقوں بلکہ خطے پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی جنگی محاذ آرائی کے نتیجے میں آبی گزر گاہیں غیر محفوظ ہو جائیں گی، جس سے نہ صرف ایران کے تیل کی ترسیل، بلکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے تیل کی نقل و حمل بھی رک جائے گی، جس سے متعدد ملک متاثر ہوں گے۔

ہرش کہتے ہیں کہ بھارت کی معیشت کا زیادہ تر انحصار خام تیل کی درآمدات پر ہے، اور وہ اپنی ضرورت کا زیادہ تر تیل عراق اور سعودی عرب سے درآمد کرتا ہے۔

اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جنگی صورت حال بنتی ہے تو آبی گزرگاہوں کے غیر محفوظ ہونے سے اس کی تیل کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے۔

ہرش کہتے ہیں کہ اگر صورت حال بگڑتی ہے تو نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی گزرگاہیں ایک چیلنج ثابت ہوں گی۔ بھارت اس وقت یہ دیکھ رہا کہ یہ صورت حال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔

بھارت کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، جب کہ اس کی امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت داری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اور وہ اس وقت دباؤ میں ہے کہ ایران سے تیل درآمد کرنا بند کرے یا اس کی سطح کم سے کم کر دے۔

بھارت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ امریکہ کی خواہش کے مطابق، ایران سے تیل کی درآمد بند کر دے گا؟