امریکہ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ دولت الاسلامیہ کے شدت پسندوں نے امریکی صحافی جیمز فولی کا سر قلم کر دیا ہے، جب کہ اُنھوں نے دوسرے یرغمالی کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
امریکی حکام نے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شدت پسندوں کے طرف سے جاری کردہ دہشتناک وڈیو اصلی ہے۔
فولی رپورٹنگ کے لیے شام میں تھے، جہاں وہ نومبر 2012ء میں لاپتا ہوگئے تھے، جس کے بعد سے اُن کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
شدت پسندوں کی طرف سے جاری ہونے والی وڈیو پر سب سے پہلے برطانیہ کا رد عمل سامنے آیا، جہاں کی انسداد دہشت گردی کی پولیس نے کہا ہے کہ اُنھوں نے اس وڈیو کے بارے مین چھان بین شروع کردی ہے، کیونکہ وڈیو میں جس شخص کی آواز سنائی دیتے ہے اُس کا لہجہ برطانوی ہے۔
اقدام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے قتل کے اس واقع کی ’شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بقول اُن کے، ’ایک بہیمانہ جرم ہے‘۔
شدت پسند گروپ نے منگل کو ایک وڈیو جاری کی تھی جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ صحافی جیمز رائٹ فولی کو ہلاک کرنا ’امریکہ کے لیے پیغام ہے کہ وہ عراق میں مداخلت نہ کرے‘۔
یہ شدت پسند گروہ اسلامی خلافت تشکیل دینے کے خواہاں ہیں، جس کے لیے وہ مشرقی شام اور مغربی اور شمالی عراق کے وسیع خطے پر قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالیہ دِنوں کے دوران کی گئی امریکی فضائی کارروائی کے نتیجے میں کرد اور عراقی لڑاکوں کو مدد ملی اور اُنھوں نے موصل میں دولت الاسلامیہ سے کلیدی اہمیت کے حامل ڈیم کا قبضہ واپس کرا لیا۔
وڈیو میں کہا گیا ہے کہ ایک اور امریکی صحافی، اسٹیون اسٹاک ویل کی زندگی کا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ فولی کی ہلاکت پر مسٹر اوباما کا کیا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ اسٹاک ویل جولائی 2013ء سے لاپتا ہیں۔
تاہم، وڈیو جاری ہونے سے کچھ ہی گھنٹے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ اُس نے موصل ڈیم کے قریب تقریباً ایک درجن فضائی حملے کیے ہیں۔
فولی کی والدہ، ڈایانا نے دولت الاسلامیہ کے جنگجوؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید یرغمالیوں کو ایذا نہ پہنچائیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ یہ ’بے گناہ‘ ہیں، اِن کا امریکی حکومت کے اقدام سے کوئی واسطہ نہیں جو وہ عراق اور شام میں کر رہی ہے۔