عرب دنیا میں حالیہ عوامی تحریکوں کے بارے میں صدر اوباما نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا، اس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ جیسا کہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ صدر اوباما نے واضح طور پر بتا دیاہے کہ امریکہ عرب آمروں اور شہنشاہیت پسندوں کے خلاف، اور عرب عوام کے ساتھ ہے ۔ لیکن ان کی تقریر کا وہ حصہ جس میں انھوں نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کی بات کی، متنازع بن گیا۔
صدر کا کہنا تھا’’امریکہ سمجھتا ہے کہ مذاکرات کی نتیجے میں دو مملکتیں وجود میں آنی چاہئیں۔ اسرائیل ، اردن اور مصر کے ساتھ فلسطین کی مستقل سرحدوں کا ، اور فلسطین کے ساتھ اسرائیل کی مستقل سرحد کا تعین ہونا چاہیئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کی سرحدیں باہم رضامندی سے کچھ علاقے کے تبادلے کے ساتھ، 1967 کی لائنوں کی بنیاد پر قائم کی جانی چاہئیں تا کہ دونوں ریاستوں کے لیے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدیں قائم ہو جائیں۔‘‘
امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور کہا کہ 1967 کی لائنیں ناقابلِ دفاع ہیں۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انھوں نے جان بوجھ کر مسٹر اوباما کے بیان کا غلط حوالہ دیا اور علاقے کے تبادلے کے معاملے کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن بعض دوسرے ماہرین پوچھتے ہیں کہ صدر اوباما نے خاص طور پر اس وقت اس قسم کی تقریر کیوں کی؟
ان لوگوں میں عرب اسرائیلی مذاکرات میں محکمۂ خارجہ کے سابق اعلیٰ عہدے دار ارون ڈیوڈ ملر بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’اس قسم کے مسئلے پر جو اتنا اختلافی ہے، باہم رضامندی سے زمین کے تبادلے کے ساتھ بھی، جون 1967 کی بات کرنا، اور وہ بھی ایسے وزیرِ اعظم کی آمد سے ذرا پہلے جس کے ساتھ آپ کا ذاتی تعلق اتنا اچھا نہیں ہے، اور فتح اور حماس کے درمیان اتحاد کے سمجھوتے کے پس منظر میں، اس قسم کی تقریر کرنا مناسب نہیں تھا۔‘‘
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر، جان بولٹن اس رائے سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر نے 1967 کی سرحد پر زور دے کر بہت بڑی سیاسی غلطی کی۔ شاید صدر یہ سمجھتے تھے کہ وہ اس طرح وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو مشکل میں ڈال دیں گے لیکن ہوا یہ کہ نیتن یاہو نے صدر کو مشکل میں ڈال دیا۔
بہت سے تجزیہ کار اسرائیلیوں اور عربوں کے درمیان پائیدار امن کے امکانات کے بارے میں مایوس ہیں۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے فواذ جرجیس کہتے ہیں’’ہمیں انتظار کرنا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا صدر براک اوباما دوبارہ منتخب ہو جائیں گے اور کیا اگلے امریکی انتخاب کے بعد، امن کا عمل دوبارہ شروع ہو سکے گا۔ فی الحال تو امن کا عمل بنیادی طور پر سکتے کے عالم میں ہے، اور اس وقت اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے کوئی معجزہ درکار ہو گا۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بنیادی امور پر اختلافات بہت زیادہ وسیع ہیں۔ ان میں نئی فلسطینی ریاست کی اصل سرحدیں، اس کا دارالحکومت کیا ہوگا، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے سوالات شامل ہیں۔ارون ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ بات صر ف امن کے عمل کی نہیں ہے ۔ یہ پورا سوال داؤ پر لگا ہوا ہے کہ کیا اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے کوئی حل ممکن ہے۔ میرے خیال میں یہ ممکن تو ہے، لیکن اس کے لیے غیر معمولی قیادت اور بصیرت کی ضرورت ہو گی اور بہت مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ۔ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ کوئی بھی، فلسطینی ہوں، اسرائیلی ہوں یا امریکی ہوں، اس کے لیے تیار ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر، جان بولٹن، کو امریکہ کے ایک سابق وزیرِ خارجہ کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ ’’جِم بیکر نے پہلے بُش ، یعنی جارج ایچ ڈبلو بُش کی انتظامیہ کے دور میں کہا تھا کہ ہم متعلقہ فریقوں سے بھی زیادہ امن کے خواہشمند ہیں۔ لیکن آپ جتنے بین الاقوامی انتظامات چاہیں کر سکتے ہیں، آپ ہر قسم کے لوگوں کو اس میں شامل کر سکتے ہیں، لیکن جب تک اسرائیلی اور فلسطینی کسی سمجھوتے پر نہ پہنچیں اور ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں، یہ سب خام خیالی اور دھوکہ ہے۔‘‘
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امن کے عمل میں اگلا قدم ستمبر میں اقوام متحدہ کی قرار داد کی شکل میں متوقع ہے جس کےتحت ایک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ توقع ہے کہ یہ قرارداد منظور ہو جائے گی، اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس اقدام کے نتائج کی پیشگوئی کرنا ناممکن ہوگا۔