پاکستانی حکام نے پولیس اور رینجرز کوحکم دیا ہے کہ وہ کراچی میں تشدد کے واقعات میں ملوث افراد کو دیکھتے ہی گولی ماردیں۔
جمعہ کوشہر میں امن وامان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے ایک خصوصی اجلاس کے بعد وزیرداخلہ رحمن ملک نے صحافیوں کو بتایاکہ پیر کی شام کو شروع ہونے والی تشددکی کارروائیوں میں اب تک کم ازکم 85افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ پولیس نے 89مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر ان سے تفتیش شروع کردی ہے۔
رحمن ملک نے کہا کہ امن وامان کی خراب صورتحال پر قابو رکھنے کے لیے ایک ہزار ایف سی اہلکاروں کو طلب کیا گیا ہے جو متاثرہ علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ ان کے بقول معلومات کی بنیاد پر ”ٹارگٹڈآپریشن “ بھی کیا جارہا ہے۔
پاکستا ن کے اقتصادی مرکز کراچی میں جاری پرتشدد واقعات کو چار روز گزرنے کے باوجود بھی شہر میں بدامنی پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور متاثرہ علاقوں میں حالات بدستور خراب ہیں ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے ان ہلاکتوں کے خلاف سوگ کے اعلان کے بعد جمعہ کو شہر میں کاروبار مکمل طور پر بند ہے ۔ خوف و ہراس کے باعث شہر سنسان اورسڑکیں ویران ہیں۔ بسوں پر فائرنگ کے نتیجے میں پبلک ٹرانسپورٹ اتحاد نے جمعہ کو گاڑیاں نہ چلانے کا اعلان کیا تھا۔ گذشتہ روز بدامنی میں تیزی کے بعد جمعہ کو شہر میں تمام تعلیمی ادارے بند رہے اور تمام پرچے بھی ملتوی کردئیے گئے ۔
اورنگی ٹاوٴن سے شروع ہونے والی کشیدگی نے شہر کے دیگر علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے ہونے والی شدید فائرنگ کے ساتھ گذشتہ دو روز میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے سرکاری و نجی املاک پر دستی بموں سے بھی حملے کیے گئے ہیں جس کے بعد ان علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی بھی جاری ہے۔
دوسری جانب کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں سفارتخانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکی سفیر نے فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید تشدد سے باز رہیں اور اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے لیے کام کریں۔ بیان میں حالیہ پرتشدد واقعات میں ساٹھ سے زیادہ جانوں کے ضیاع کو ایک المیہ قرار دیتے ہوئے امریکی سفیر نے ہلاک ہونے والے بے گناہ متاثرین کے اہل خانے اور دوستوں سے اظہارِ تعزیت کیاہے۔
رواں ہفتے انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ تشددکی اس تازہ لہر سے قبل رواں سال کی پہلی ششماہی میں تشدد کے مختلف واقعات میں 1138افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں لسانی بنیادوں پر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد56اور مختلف سیاسی جماعتوں کے مارے جانے والے 184کارکن بھی شامل ہیں جنہیں حکومت ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا نام دیتی ہے۔