ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کا جائزہ لینے والے امریکی قانون سازوں کی حمایت کے حصول کے لیے جاری کوششوں کے سلسلے میں وزیر خارجہ جان کیری اور توانائی کے وزیر ارنسٹ مونیز منگل کو دوبارہ کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔
اقتصادی پابندیوں کو اٹھائے جانے کے عوض ایران کی طرف سے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پر غور اور رائے شماری کے لیے کانگریس کے پاس 60 روز کا وقت ہے جس میں اب سات ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے اس معاہدے کی شرائط کی منظوری دینے کے بعد ایک نظام الاوقات وضع کیا تھا، جس کے تحت اس سال کے اواخر تک پابندیاں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
جان کیری اور ارنسٹ مونیز، وزیر خزانہ جیکب لیو کے ہمراہ ایوان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے اپنا بیان دیں گے۔
تینوں وزرا نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کی اسی طرح کی کارروائی میں حصہ لیا تھا، جہاں جان کیری نے کہا تھا کہ اس معاہدے کو مسترد کرنے سے ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے کو پرامن طریقہ سے حل کرنے کا ایک بہتریں موقع کھو دیا جائے گا۔
صدر براک اوباما اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ کانگرس کی طرف سے اس معاہدے کو مسترد کرنے کے اقدام کی صورت میں وہ ’ویٹو‘ کے اختیار کو استعمال کریں گے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس کی طرف سے یہ پابنیدیاں اس بنا پر عائد کی گئی تھیں کہ ایران اپنی جوہری ٹیکنالوجی کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران اپنے ہاں جوہری افژودگی کے عمل کو محدود کرے گا اور نگرانی کے سلسلے میں وہ اقوام متحدہ کو اپنی تنصیبات تک رسائی دے گا۔
منگل کو ہونے والے اجلاس سے پہلے کانگرس کی امورخارجہ کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ رائس نے کہا کہ اس معاہدے میں ’’کئی کمزوریاں ہیں جن کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے‘‘۔
اس کمیٹی میں شامل کانگرس کے ڈیموکریٹک رکن ایلیٹ اینگل نے کہا کہ ’’اس بابت ان کے کئی سوالات اور شدید خدشات ہیں‘‘ اور ان کے بقول انتظامیہ کی طرف معلومات فراہم کرنا اس عمل کے لیے نہایت اہم ہے۔