افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل حکومت، حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کونسل قائم کی ہے جو طالبان کے ساتھ ممکنہ بات چیت کے لیے مذاکرات کاروں کا وفد تشکیل دے گی۔
ہفتے کو کابل میں کونسل کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر غنی نے کہا کہ حکومت کی قیادت میں ہونے والی کوششوں سے افغانستان میں تشدد کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
امریکہ افغانستان میں گزشہ 18 سال سے جاری تنازع کے حل کے لیے گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے افغان طالبان سے بات چیت کر رہا ہے۔ اب اس بات کی توقع کی جا رہی ہے امن عمل کے نتیجے میں بالآخر تنازع کے افغان فریقوں بشمول طالبان کے درمیان بات چیت کے آغاز اور تشدد کی کارروائیوں کو روکنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
لیکن اب تک امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے پر مرکوز رہی ہے۔
افغان نژاد امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے جس کا اگلا دور آئندہ ہفتے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا۔
رواں سال مارچ میں فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کے آخری دور کے بعد خلیل زاد نے اعلان کیا تھا کہ دونوں فریقوں نے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان سرزمین کو پھر سے دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکنے کے لیے ایک مجوزہ سمجھوتے کے مسودے پر اتفاق کرلیا ہے۔
لیکن خلیل زاد نے یہ واضح کیا تھا کہ حتمی سمجھوتہ افغانستان میں مکمل جنگ بندی اور افغانوں کے مابین مذاکرات میں طالبان کی شرکت سے مشروط ہے۔
افغان حکومت کی طرف سے قائم کردہ نئی اعلیٰ سطح کی شوریٰ کے ترجمان عمر داؤد زئی نے ہفتے کو کونسل کے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ کونسل کو ایک ہفتے کے اندر ایسا وفد تشکیل دینے کا کام سونپا گیا ہے جو افغان حکومت کے نمائندے کے طور پر طالبان سے تبادلۂ خیال کے لیے رواں ماہ قطر جائے گا۔
دوسری طرف طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو رات گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ قطر میں رواں ماہ ہونے والا اجتماع کوئی مذاکراتی اجلاس نہیں ہوگا بلکہ اس میں شریک افراد اپنے خیالات سے شرکا کو آگاہ کریں گے۔
طالبان ترجمان کے بقول "کوئی بھی افغان حکومت کے نمائندے کے طور پر کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ ہر وہ فرد جو کابل انتظامیہ کا حصہ ہے اور شرکا کی فہرست میں شامل ہے، اپنی ذاتی حیثیت میں اجلاس میں شریک ہو کر اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کرے گا۔"
امریکہ اور بین الاقوامی برداری طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت کریں۔ لیکن طالبان کابل حکومت سے بات چیت سے انکار کرتے آئے ہیں۔
امریکہ کے ںمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ انہوں بھی خطے کے اپنے حالیہ دورے کے دوران قطر میں افغان فریقین کے درمیان بات چیت کے عمل کو یقینی بنانے کے معاملے پر افغان صدر اشرف غنی اور دیگر افغان رہنماؤں سے بات چیت کی ہے۔
خلیل زاد نے یہ بات اتوار کو کابل کو دورہ مکمل کرنے کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہی ہے۔
کابل میں امریکی سفارت خانے کے طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق خلیل زاد نے اپنے دورے کے دوران صدر اشرف غنی، سابق صدر حامد کرزئی، افغان ہائی پیس کونسل اور دیگر ممتاز افغان رہنماؤں سے افغان تصفیے کے عمل کو تیز کرنے اور افغانستان میں تشدد کو کم کرنے کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا۔
بیان کے مطابق خلیل زاد نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ حکومت میں شامل اور حکومت سے باہر جن افغان رہنماؤں سے ان کی بات ہوئی ہے وہ تمام امن کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔