ویتنام پر امریکی پابندی کے خاتمے پر ملا جلا رد عمل

کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ایڈ رائس نے ایک بیان میں کہا کہ اب انتظامیہ ویتنام پر انسانی حقوق بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالنے میں اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے ویتنام پر ہتھیاروں کی فروخت پر 50 سال سے زائد عرصہ سے عائد کی پابندی ہٹا لی ہے جو ان کی خارجہ پالیسی میں سفارت کاری اور بات چیت کی اہمیت کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔

اوباما نے کہا کہ ’’گزشتہ ایک صدی میں ہماری قوموں کے درمیان تعاون تھا اور پھر جنگ ہوئی، تکلیف دہ علیحدگی ہوئی اور پھر طویل مفاہمت۔‘‘

’’اب ہماری حکومتوں کے درمیان دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے معمول کے تعلقات بحال ہونے کے بعد ہم ایک نئے موڑ پر پہنچے ہیں۔‘‘

پیر کو ہنوئی میں اپنے ویتنامی ہم منصب ٹران ڈائی کوانگ کے ساتھ کھڑے ہو کر اوباما نے کہا کہ کس طرح ویتنام کو فوجی سازوسامان کی فروخت پر عائد پابندی ہٹانے سے سرد جنگ کی ایک آخری نشانی کا خاتمہ ہو گا، دفاعی تعاون بڑھے گا اور اس سے اپنے ماضی کے حریف کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امریکی عزم کا اظہار ہوتا ہے۔

اپنے بیان میں امریکی صدر نے اس بات کو کم اہمیت دی کہ یہ پابندی ہٹانے کا مقصد علاقے میں، خصوصاً بحیرہ جنوبی چین میں چین کے اثر و رسوخ اور سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

اس کی بجائے انہوں نے کہا کہ ان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی ترجیح بحرالکاہل کے نزدیک واقع ایشیائی ممالک میں امریکی کردار میں اضافہ کرنا ہے۔

سینٹر آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے گریگ پولنگ نے کہا کہ اگرچہ چین پابندی ہٹائے جانے میں ایک عنصر ہے مگر اصل بات ویتنام اور امریکہ کے تعلقات میں گہرائی اور امریکہ کا پورے ایشیا میں اپنا کردار بڑھانے کا عزم ہے۔

امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے پیر کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کے ممالک زیادہ سے زیادہ امریکہ سے تعاون چاہتے ہیں کیونکہ وہاں سکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں ایک عمومی تشویش پائی جاتی ہے۔

ریپبلکن سینیٹر باب کروکر نے بھی اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی جزوی طور پر ہٹانے کے حامی تھے تاکہ ویتنام کے بحری دفاع کو مضبوط بنایا جا سکے۔

تاہم بہت سے لوگ اوباما کے اس فیصلے سے خوش نہیں۔

کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ایڈ رائس نے ایک بیان میں کہا کہ اب انتظامیہ ویتنام پر انسانی حقوق بہتر بنانے کے لیے دباؤ ڈالنے میں اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے بھی کم و بیش اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ نے ویتنام کو نوازا ہے اگرچہ انہوں نے انسانی حقوق کے متعلق کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا۔ انہوں نے سیاسی قیدیوں کی قابل ذکر تعداد کو رہا نہیں کیا۔ انہوں نے کسی غیر معمولی عزم کا اظہار نہیں کیا۔‘‘

تاہم پیر کو اپنے بیان میں اوباما نے کہا تھا کہ وہ ویتنام پر آفاقی انسانی حقوق کے متعلق دباؤ ڈالتے رہیں گے۔