عام خیال یہ تھا کہ اس زمانے میں مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی سفارتکاری کی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔
اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات میں رابطہ کار کے طور پر کام کرنے کے لیے امریکہ نے خصوصی مندوب جارج مچل کو نامزد کیا۔
اس ہفتے نائب صدر جو بائیڈن کے یروشلم کے دورے کو بڑی اہمیت دی گئی۔ انھوں نے کہاکہ جب اسرائیل کی سلامتی کا سوال ہو تو امریکہ اور اسرائیل کے درمیان کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹرز میں بھی گئے ۔ انھوں نے کہا امریکہ ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دے گا جو امن کی خاطر خطرات مول لینے کرنے کو تیار ہیں۔
جو بائڈن اوباما انتطامیہ کے اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں جنھوں نے اس قسم کا دورہ کیا۔ لیکن ان کا دورہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ اسرائیلی حکومت نے امریکی حکومت کے اس مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ مقبوضہ علاقوں میں تعمیرات پر مکمل پابندی لگا دی جائے، مشرقی یروشلم میں نئے رہائشی یونٹس کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔
بائڈن نے اس اقدام پر شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’میرے خیال میں ، اس فیصلے سے اس اعتماد کو نقصا ن پہنچا جو نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے ضروری ہے۔ صدر اوباما کی ہدایت پر میں نے فوری طور پر ، اور صاف الفاظ میں اس اقدام کی مذمت کی۔‘‘
یروشلم کی سڑکوں پر، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں نے امن کی جستجو میں امریکہ کے رول پر اس طرح اظہار ِ خیال کیا۔ایک فلسطینی نے کہا کہ امریکی تو برسوں پہلے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اس مسئلے کے حل میں ان کا کوئی رول نہیں ہے۔ انہیں صرف ایک چیز کی فکر رہتی ہے اور وہ ہے اسرائیل کی سلامتی۔ کسی اور کی سلامتی کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ ایک اسرائیلی عورت نے کہا کہ اگر اوباما ان تمام لوگوں کو باز رکھنے کی کوشش کریں جو اسرائیل کے خلاف ہیں تو پھر وہ لوگ اسرائیل کا احترام کرنے لگیں گے اور قیامِ امن کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے ، امریکہ کی مصالحتی کوششوں پر بحث کے لیے بعض ماہرین کو طلب کر لیا۔ ایک تجربے کار امریکی سفارتکار نے سینیٹ کے پینل کو بتایا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ مصر اور اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر ڈینئیل کرٹز نے کہا’’جب امریکہ کسی بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو لو گ بغور سنتے ہیں۔‘‘ وہ چاہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ اس مسئلے کے حل میں زیادہ سرگرمی سے حصہ لے۔ ’’پچھلے سال کی کارکردگی پر مجھے مایوسی ہوئی ہے۔ امن کی کوششوں میں جرات کی کمی رہی، تخلیقی عمل کا فقدان رہا اور ہماری سفارتکاری جو ش و جذبے سے عاری رہی۔‘‘
بعض لوگوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ علاقے میں صورتِ حال بہت زیادہ پیچیدہ ہو گئ ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کےرابرٹ مالی نے کہا’’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی اتنی زیادہ پیچیدہ، تضادات اور الجھنوں سے پُر،صورتِ حال پیدا ہوئی ہو جتنی آج کل ہے ۔‘‘
لیکن اسرائیلی اور فلسطینی جس ایک نکتے پر پوری طرح متفق ہیں وہ یہ ہے کہ امن کا عمل اتنا زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ امریکی حکومت اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ زیاد اسالی امریکہ میں فلسطینی نقطہء نظر پیش کرتے ہیں۔ سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے انھوں نے کہا’’تمام پارٹیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور سمجھوتے پر پہنچنے میں امریکہ کی کوششوں کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔‘‘
1970 کی دہائی سے امریکہ کی ثالثی کے نتیجے میں امن کے عمل میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے ۔ 1978 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے ہوئے ۔اور 1993 میں وائٹ ہا ؤ س کے لان پر اسرائیلی فلسطینی مصافحے سے قیام ِ امن کے وعدے کی تجدید ہوئی۔ لیکن آج کل حالات تعطل کا شکار ہیں اور اصل مقصد یہ ہے کہ کسی طرح مذاکرات ایک بار پھر شروع کیے جائیں۔