غزہ کی صورتحال اور علاقے میں ہونے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اس مسئلے کا دیر پا حل تلاش کرنے کا خواہاں ہے۔ ایک طرف جہاں وہ حماس کی غزہ میں موجودگی کے خلاف ہے ، وہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کا اقتدار ممکن ہے۔
اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے حماس گروپ کو جوابدہ ٹھہرانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’حماس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں کسی سوال کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہےَ‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
اسرائیل ان لوگوں کوہدف بنا رہا ہے جنہوں نے اس کے بقول 7 اکتوبر کے حملوں کی سازش تیار کی۔ان میں غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار ، گروپ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد دیف اور دیف کے نائب مروان عیسیٰ شامل ہیں ۔
وائٹ ہاؤس نے تسلیم کیا ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیت کو کم کرنے اور اس کی قیادت کو ہٹا دینے سے تنظیم کی وہ صلاحیت متاثر ہوگی جس کا تعلق حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے سے ہے۔
SEE ALSO: جنگ کے بعد غزہ کا مستقبل کیا ہوگا؟ امریکہ اسرائیل میں اختلافِ رائےایک بااختیار فلسطینی اتھارٹی
صدر بائیڈن نے کہا کہ فلسطینیوں کا نظم ونسق بہتر طور پر نہیں چلایا جا سکا۔ایسا بہت کچھ ہوا ہے جو بہت منفی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے 1993 میں اپنے قیام اور خاص طور پر 2000 کی دہائی کے اوائل میں دوسرے انتفادہ کے بعد سے فلسطینیوں میں اپنی ساکھ کھو ئی ہے۔
حماس نے 2006 میں فلسطینی اتھارٹی کے خلاف مہم چلائی اور اسے شکست دے کر غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ نے مارچ میں ایک سروے کیا جس کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بدعنوان ہے اور اس کے صدر محمود عباس کو اپنے منصب سے ہٹ جانا چاہئیے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے جمعرات کے روز رملہ میں اس بات کا اعادہ کیا تھاکہ غزہ میں جنگ کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو وہاں حکمرانی کے فرائض سنبھالنے چاہیئں۔ تاہم، ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تنظیم کو اپنی ’’تجدید اور احیاء‘‘کی ضرورت ہوگی۔
SEE ALSO: جنگ کے بعد غزہ پر حکومت: غیریقینی صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں خلیج اور جزیرہ نما عرب امور کے پروفیسر گورڈن گرے نے کہا کہ یہ ایک دشوار ہدف ہے جس کے لیے بہت زیادہ بین الاقوامی حمایت درکار ہوگی۔
گرے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جزوی طور پر نیتن یاہو بھی قصوروار ہیں۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ امن کے لیے کوئی قابل اعتماد اور متحد فلسطینی شراکت دار نہیں ہیں تاہم ان کے ناقدین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر فلسطینی قیادت کومالیاتی طور پر کمزور کر رہے ہیں جبکہ حماس کو غیر ملکی فنڈز کے حصول کی اجازت دے کر اسے بااختیار بنا رہے ہیں۔
سعودی اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا
صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ’’سعودی عرب سے لے کرمتعدد دوسری ریاستیں تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہیں۔‘‘ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے اسرائیل اور مغربی کنارے جانے سے پہلے بدھ کے روزریاض میں قیام کیاتھا۔
سعودی عرب ایک اہم عرب ملک اور مسلم دنیا کی رائے استوار کرنے کا حامل ملک ہےاور اس کی جانب سے اسرائیل کو قبول کرنا ابراہیمی معاہدے کی ایک بڑی توسیع کی نشاندہی کرے گا جس کے تحت اسرائیل اور اس کے چند عرب پڑوسیوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔
سابق صدر ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے کو متعارف کرایاگیا تھا۔ بیشتر عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے دو ریاستی حل کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے تھے۔
ایسامعلوم ہوتا ہے کہ سعودی اسرائیل معاہدہ 7 اکتوبر سے پہلے تقریباً طے ہو نے والا تھا جس کی ایک جزوی وجہ ریاض اور اسرائیل کی ایران کے خطرے کے بارے میں باہمی تشویش تھی ۔
تاہم، امارات بحرین اور مراکش کے برعکس سعودی ایسا کوئی معاہدہ کرنے سے گریزاں تھے جس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچے۔ ان تینوں ممالک نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
SEE ALSO: غزہ: مسلمان ملکوں کےگروپ کی غزہ میں جنگ بندی کی کوششریاض اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا سب سے بڑا انعام امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ ہے جو ایران کے خلاف اس کا تحفظ کرے گا۔
سعودی عرب نے تعلقات معمول پر آنے والی بات چیت کو معطل کر دیا تھا کیونکہ فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی سامنے آنے والی تصاویر نے عرب دنیا کو مشتعل کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو برائن کیٹولس نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی دباؤ انتظامیہ کی اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کا حصہ ہےجس کا تعلق غزہ میں اس وقت ہونے والی زمینی کارروائی اور اس کے نتیجے سے ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ یہاں میرے خیال میں راز کی بات یہ ہے کہ نہ تو امریکہ، نہ اسرائیل، نہ فلسطینی اتھارٹی، اور نہ ہی عرب شراکت داروں کو اس بات کا واضح اندازہ ہے کہ اس ساری صورتحال کا انجام کیا ہوگا۔‘‘
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار Patsy Widakuswaraکی رپورٹ۔