وسط مدتی انتخابات میں صدر اوباما کا کردار

وسط مدتی انتخابات میں صدر اوباما کا کردار

صدر براک اوباما نومبر کے وسط مدتی انتخابات لڑنے والے ڈیموکریٹ امیدواروں کی انتخابی مہم میں اور ان کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے میں روز بروز زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔ صدر چاہتے ہیں کہ اس سال کے انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس اکثریت ختم ہونے سے ان کے لیے اگلے دو برسوں میں حکومت کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو پارٹی وائٹ ہاؤس کو کنٹرول کرتی ہے وہ نئے صدر کے پہلے وسط مدتی انتخاب میں عام طور سے کانگریس میں کچھ نشستیں کھو دیتی ہے۔ اس تاریخی حقیقت کے علاوہ ملک کی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے بھی اس سال نومبر کےانتخابات میں ڈیموکریٹس کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر صدر اوباما پورے ملک میں ڈیموکریٹ امیدواروں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں، انہیں معیشت کے بارے میں لوگوں کے اندیشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں کبھی بحالی کے آثار نظر آتے ہیں اور کبھی یہ عمل رک جاتا ہے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’’ہم بتدریج لیکن یقینی طور پرصحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم بالکل صحیح راستے پر ہیں۔ معیشت مضبوط ہو رہی ہے، لیکن اس کو بڑا شدید دھچکا لگا تھا اورجن 80 لاکھ افراد کے روزگار ختم ہوئے تھے وہ سب راتوں رات واپس نہیں مِل سکتے‘‘۔

وسط مدتی انتخابات میں صدر اوباما کا کردار



اقتصادی بحالی کی رفتار کے بارے میں لوگوں کی مایوسی اور تشویش کا اظہار رائے عامہ کے جائزوں میں تقریباً روزانہ نظر آتا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک حالیہ سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ سروے میں شامل 41 فیصد لوگ معیشت کے بارے میں صدر کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور61 فیصد کے خیال میں صدر اوباما کے عہد میں معیشت کی حالت یا تو اور زیادہ خراب ہو گئی ہے یا پہلے جیسی ہی ہے۔

روزگار اور معیشت کے بارے میں لوگوں کی پریشانی کا اظہار اس سال کے رائے عامہ کے جائزوں میں ہو رہا ہے۔ ریپبلیکنز کی مقبولیت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور انہیں توقع ہے کہ وہ امریکی کانگریس کے ایک یا دونوں ایوانوں پر کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیں گے۔

اگر ریپبلیکنز نے نومبر میں کم از کم 39 نشستیں حاصل کر لیں تو امکان یہی ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلیکن لیڈر John Boehner کو اسپیکر کا عہدہ مِل جائے گا۔ انھوں نے کہا ہے کہ’’ ڈیموکریٹس نے وعدے تو بڑے لمبے چوڑے کیے تھے لیکن وہ بہت کم وعدے پورے کر سکے۔ اب وہ امریکیوں کی حمایت اور اعتبار کھو چکے ہیں‘‘۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اس سال کے انتخابات معیشت کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسیوں پر ایک طرح کا ریفرینڈم ہوں گے۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے پروفیسرلیری سبیاتو کہتے ہیں کہ’’ یہ انتخاب معیشت کے بارے میں ہے۔ بہت سے دوسرے مسائل بھی ہیں لیکن ان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑےگا۔ بی پی کی طرف سے سمندر میں تیل کا پھیلنا، امیگریشن، ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی، یہ سب چیزیں متنازعہ اور دلچسپ ہیں، لیکن اس انتخاب کا اصل مسئلہ خراب معیشت اور بے روزگاری کی اونچی شرح ہے۔ ڈیموکریٹس کو خراب معیشت سے نقصان پہنچ رہا ہے‘‘۔

حالیہ دنوں میں صدر ووٹرزکو انتباہ کرتے رہے ہیں کہ ملک کی اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ریپبلیکنز کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ اقتصادی پالیسی کو پھر بُش انتظامیہ کے دور میں واپس لے جائیں گے۔ لیری کہتے ہیں کہ بہت سے ڈیموکریٹک امید وار ملک کے موجودہ اقتصادی بحران کے لیے ریپبلیکنز کو الزام دیتے رہیں گے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ووٹرز کو یقین کم ہی آئے گا۔ صدر اپنے عہدے کے دو سال مکمل کر رہے ہیں اور جو کچھ ہوا ہے اس کے لیے قدرتی طور پر ووٹرز موجودہ صدر اوران کی پارٹی کو ہی ذمے دار ٹھرا تے ہیں۔

ایسے ڈیموکریٹس بھی ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ اس سال صدر ان کی انتخابی مہم میں ہاتھ بٹائیں۔ ایسے امیدوار ان ریاستوں میں ہیں جہاں مسٹر اوباما غیر مقبول ہیں۔ لیکن جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے Stephen Wayne کہتے ہیں کہ ایسے امیدوار صدر کی انتخابی مہم کے درمیان جمع ہونے والی رقم کا خیر مقدم کریں گے’’ایسے ڈیموکریٹس کے لیے فنڈ جمع کرنے کا خیر مقدم کیا جائے گا جنہیں ریپبلیکنز نے نشانہ بنا رکھا ہے۔ ڈیموکریٹس میں اب بھی صدر اوباما کی شخصیت بہت پُر کشش ہے اور وہ بہت زیادہ پیسہ اکٹھا کر لیتے ہیں‘‘۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ریپبلیکنز نے کانگریس کے ایک یا دونوں ایوانوں پر قبضہ کر لیاتو اس سے اگلے دو برسوں کے دوران، صدر کی اپنے داخلی ایجنڈے پر عمل کرنے کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔ اس طرح جب وہ2012 ء میں خود اپنے دوبارہ انتخاب کے لیے تیاری کر رہے ہوں گے، تو سیاسی طور پر ان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔