صدر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کی خبر پر لندن میں کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔ برطانوی میڈیا، امریکہ میں دونومبر کے مڈٹرم انتخابات کی بھرپور کوریج کررہاتھا۔ عام عوام نے اس الیکشن کے ہر پہلو پر تو توجہ نہیں دی مگروہ اتنا ضرور جانتے تھے کہ امریکہ میں آنے والی تبدیلیاں ان کے لیے بھی اہم ہوسکتی ہیں۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک دوست ملک ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ تعلقات قائم رہیں گے۔
برطانیہ اور جرمنی کی سٹاک مارکیٹوں میں کوئی غیر معمولی نقل وحرکت دیکھنے میں نہیں آئی۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہ ہونا فائدہ مند ہے۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ مارکیٹ پر سیاست سے زیادہ امریکہ کی مالیاتی پالیسی اثر انداز ہوتی ہے۔
ڈانا ایلن کا تعلق لندن کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیزسے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ صدر اوباما ایک فارن پالیسی کے صدر کی حیثیت سے ابھریں۔ مگر مجھے کوئی ایسا شعبہ نظر نہیں آتا جس میں انہیں بہت کامیابی ہو گی۔
سینیٹ میں اکثریت کم ہونے کے بعد ڈیموکریٹس کو امکانی طورپرہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ڈانا ایلن کہتی ہیں کہ روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو برقرار رکھنا اب زیادہ مشکل ہے اور میرا نہیں خیال کے یورپی ممالک کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہے۔
ایران کا نیوکلیر پروگرام بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر صدر کو کانگریس کی بات پر اب زیادہ دھیان دینا پڑے گا۔ ایلن کہتی ہیں کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں اب صدر سے پاس اتنی گنجائش نہیں رہے گی۔اگر اس معاہدے سے کچھ حاصل ہوا تو اس میں ان پابندیوں کو ہٹانا پڑے گا جو امریکہ نے لگائی ہیں۔ مگر صدر اوباما کے لیے نئی بننے والی کانگریس کے ساتھ ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا کہ پرانی کانگریس کے ساتھ تھا۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے خارجہ امورکے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکی پالیسی پر ان انتخابات سے فرق پڑے گا اور وہ اسی طرح علاقے میں امن کے لیے کام کر تے رہیں گے۔
صدر اوباما نےاپریل 2009ء میں برطانیہ کا دورہ کیاتھا۔وہ ان کا صدر کی حیثیت سے یورپ کا پہلا دورہ تھا۔ اس وقت امیدیں بلند تھیں اور دنیا میں بڑی تبدیلیاں لانے کی باتیں کی جارہی تھیں ۔ جب کہ اب برطانیہ اور تمام اتحادی یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا صدر اوباما بیرونی معاملات پر اسی انداز میں اپنی کوششیں جاری رکھیں گے یا اپنی توجہ ملک کے اندرونی معاملات کی طرف موڑ لیں گے۔