ول کُک کے لیے گھر واپس لوٹنا تقریباً اتنا ہی مشکل تھا جتنا عراق کی جنگ پر جانا۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ شدید دھماکے کے نتیجے میں، اس بائیس سالہ سابق امریکی فوجی کے دماغ میں چوٹ آَئی ہے۔ اس دھماکے میں ان کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی۔ وہ اب مصنوعی ٹانگ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے دماغ کو پہنچنے والے زخم آہستہ آہستہ بھر رہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میری یاد داشت کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ مجھے کوئَی بات یاد نہیں رہتی ۔ جب میں بولنے کی کوشش کرتا ہوں، تو مجھے لفظ یاد نہیں آتے۔‘‘ انھوں نے شدید تشویش اور پریشانی، اور سر میں شدید درد کی شکایت کی۔
فوج کے ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق انہیں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی یعنی شدید صدمے اور دباؤ کی ذہنی بیماری کا عارضہ ہے۔
کُک کو اندازہ تھا کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے ضرور، کوئی ایسی جسمانی خرابی جو بظاہر ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ان کے مطابق ’’انھوں نے مجھے پوری بات نہیں بتائی۔ میرے خیال میں انھوں نے کوشش ہی نہیں کی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ انھوں نے پوری بات سمجھ لی ہے۔ ان کے خیال میں مجھے پی ٹی ایس ڈی کا عارضہ تھا کیوں کہ ان کے ایک اسکین میں ٹرامیٹک برین انجری یا ٹی بی آئی یعنی صدمے سے پہنچنے والے دماغی زخم نظر نہیں آئے۔‘‘
ماہرِ نفسیات اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل، ڈاکٹر اسٹیفن زیناکس نے جو اب اپنی پرائیویٹ پریکٹس کرتےہیں، بہت تفصیل سے ول کے کیس کا معائنہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ فوج کے ڈاکٹروں کے پاس بعض اوقات اتنی تفصیل سے معائنہ کرنے کا ٹائم نہیں ہوتا۔
یہ بات فوج کے کلچر کا حصہ ہے، اور ایسا کرنا صحیح بھی ہے۔ ان کی تمام تر توجہ اس مشن پر ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جتنے لوگ میدانِ جنگ میں بھیجے جا سکتے ہیں، بھیج دیے جائیں۔
اسٹاف سارجنٹ بیلز کے کیس کی وجہ سے ریاست واشنگٹن میں ان کے اپنے فوجی اڈے کے ملٹری ہسپتال پر توجہ مبذول ہوئی ہے۔ اس ہسپتال میں سینکڑوں فوجیوں کی پی ٹی ایس ڈی کی تشخیص کو غلط قرار دیے جانے کے معاملے کی تفتیش ہو رہی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ان فیصلوں کی اصل وجہ یہ تشویش تھی کہ دماغی بیماریوں کے علاج پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا تعلق علاج معالجے کے نظام سے نہیں ہے۔
ڈاکٹر زیناکس کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ فوج کے ڈاکٹر علاج معالجے کے سلسلے میں جو فیصلے کرتے ہیں، ان میں اخراجات کو مد نظر رکھا جاتا ہو۔ اس کے علاوہ، تجربہ، مریض کو دیا جانے والا وقت، اور محض اتفاق، یہ سب عوامل بھی کار فرما ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر زیناکس کا کہنا ہے کہ ’’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں مریضوں کے حالت کے بارے میں زیادہ حساس ہونا چاہیئے، شاید ہمیں تشخیص کرتے وقت کمتر درجے کی بیماری کی تشخیص کرنے کے بجائے زیادہ شدید بیماری کی تشخیص کرنی چاہیئے ؟ یہ وہ سوال ہے جس پر غور کیا جانا چاہیئے۔‘‘
کُک کو 30 ہائپربارک آکسیجن ٹریٹمنٹس سے فرق پڑا ہے۔ ان کے مطابق ’’مجھے اب سر کے درد سے نجات مل گئی ہے۔ کانوں میں آوازیں آنا بند ہو گئی ہیں۔ میری یاد داشت بہتر ہو رہی ہے۔ مجھے اب چیزیں یاد رہنے لگی ہیں۔ میری تشویش اور پریشانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے اور میں اس پر قابو پا سکتا ہوں۔
ول کا فوج میں واپس جانے کا تو کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن وہ اپنی عام زندگی میں واپس آ رہے ہیں۔ چند مہینے پہلے تک، انہیں فون نمبر بھی یاد نہیں رہتے تھے۔ اب وہ کالج جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔