اگلے سال سے پینٹاگان امریکہ کی فوجی خواتین کو لڑاکا مشن میں حصہ لینے کی اجازت دے رہا ہے جس کے بعد وہ میدان جنگ میں ٹینک چلا سکیں گی اور مارٹر گولے برسا سکیں گی۔
امریکہ کے وزیر دفاع نے جمعرات کو پینٹاگان میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں کسی کو استثنیٰ نہیں ہو گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی رضاکارانہ طور پر بھرتی کی گئی لڑاکا فورس 21 ویں صدی میں ملک کی نصف آبادی کو نظر انداز نہیں کر سکتی جب ہمیں خواتین سمیت ’’جتنا ممکن ہو اتنی بڑی آبادی سے اپنی قوت لینی چاہیئے۔ ہمیں ہر اس شخص سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے جو ہمارے معیار پر پورا اترتا ہے۔‘‘
1970 کی دہائی کے وسط سے عورتیں بتدریج لڑائی سے متعلق فرائض سرانجام دینے کی جانب بڑھ رہی ہیں جب پہلی مرتبہ انہیں فوجی سروس کی اکیڈمیوں میں جانے اور امریکی فوج میں شامل ہونے کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا۔
اس وقت فوجی خواتین پر صرف لڑائی سے متعلق ملازمتوں کی ممانعت ہے جو فوجی ملازمتوں کے 10 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
کارٹر نے کہا کہ امریکہ کی تین مسلح افواج عورتوں کی فوج کی سب سے خطرناک اور مشکل ملازمتوں میں شمولیت کے حق میں ہیں۔ تاہم میرین کور تحقیقی مطالعوں کی بنیاد پر عورتوں کو کچھ ملازمتوں سے مستثنیٰ قرار دینا چاہتی ہے جن میں دیکھا گیا کہ عورتوں کی شمولیت لڑاکا فورسز کی کارکردگی کو کم کرتی ہے۔
تین سال تک جائزے کے بعد کارٹر نے کہا کہ وہ ان تحقیقی مطالعوں کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نئے ضوابط نافذ ہونے کے بعد میرین کور کے تحفظات کو دور کیا جا سکے گا۔
کارٹر نے کہا کہ وہ فوج کی ’’تمام سروسز کو اکٹھے کام کرتے ہوئے‘‘ نئے ضوابط متعارف کرانے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی کا بنیادی مقصد امریکہ کی لڑاکا فوج کو بہتر بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام مسلح افواج میں کام اور فرائض سے متعلق فیصلے صنف کی بجائے صلاحیت کی بنیاد پر کیے جائیں گے، مگر ضروری نہیں کہ برابر مواقع کا مطلب برابر شمولیت بھی ہو کیونکہ کچھ کاموں کے لیے جسمانی صلاحیت اور کچھ مشنوں میں بین الاقوامی حقائق کو مد نظر رکھا جائے گا۔