افغانستان سے فوجی انخلا کی بات قبل از وقت ہوگی: امریکی فوج

فائل

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ وہیں امریکی فوج کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا یا وہاں انسداد دہشت گردی پر مامور امریکی افواج کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا جلد بازی پر مبنی ہوگی۔

جوائنٹ چیفز آف اسٹاف، میرین جنرل جوزف ڈنفرڈ نے بدھ کو پینٹاگان میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ فی الوقت افغانستان سے امریکی فوج کے لیے ’انخلا‘ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے۔

رواں سال کے دوران کسی وزیر دفاع یا چیئرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کی جانب سے پینٹاگان کی یہ پہلی اخباری بریفنگ تھی، جو ڈنفرڈ دے رہے تھے۔

جنرل ڈنفرڈ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امن سمجھوتہ 'جوں کے توں قسم کی صورت حال' کو تبدیل کرے گا، جو 18 برس طویل تنازع کے حل کے لیے درکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی سمجھوتے کی بنیاد ’شرائط پر مبنی ہوگی' اور یہ بات ضروری ہے کہ افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے، جہاں سے امریکہ کے خلاف حملے ہوں۔

جنرل ڈنفرڈ کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات قبل از وقت ہوگی کہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ہماری موجودگی کس نوعیت کی ہوگی، جب تک اس بات کا بہتر طور پر احاطہ نہ کر لیا جائے تو فوجی انخلا کی بات نہیں کی جاسکتی۔

دوسری جانب وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ ’تمام آپشنز' میز پر رکھے جائیں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ کی طرف سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنماؤں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا آٹھواں دور جاری ہے۔ اور جلد فریقین کے کسی معاہدے پر اتفاق کا امکان ہے۔