چین کا خطے میں اثر و رسوخ اور اس کی ابھرتی ہوئی فوجی قوت اس سال امریکہ کے فوجی عہدیداروں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔
امریکہ کی انڈو پیسیفک کمان، امریکی محکمہ دفاع اور امریکہ کے انٹیلی جنس کے ادارے چین کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت سے لے کر، ان کے بقول، اس کے دلیرانہ سائبر حملوں اور جاسوسی کی کھلی مہموں کے بارے میں بارہا خبردار کر چکے ہیں۔
اب امریکی فوجی انٹیلی جنس کے ایک اعلیٰ کے عہدیدار نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکہ کے پالیسی ساز اور قانون ساز چین سے درپیش خطرے کو سنجیدگی سے نہ لے رہے ہوں۔
نیوی کے رئیر ایڈ مرل مائیکل سٹوڈیمین نے،جو انڈو پیسیفک کمان کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس ہیں، اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بدھ کے روز انٹیلی جنس اینڈ نیشنل سیکیوریٹی ایلائنس نامی ایک غیر جماعتی انٹیلی جنس گروپ کے ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں یقین نہیں کہ واشنگٹن میں عہدیدار اس بات کو اہمیت دے رہے ہیں، کیونکہ،بعض باتیں، بقول ان کے، ایسی ہیں کہ ان کی جانب واشنگٹن کی توجہ دلانا مشکل ہوتا ہے۔
سٹوڈیمین نے کہا کہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایسے میں جب امریکہ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ کا امکان نہیں ہے، مگر چین جیسے ملک اسی کو اپنی جدوجہد کا بنیادی نکتہ بناتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شی جن پنگ کی قیادت میں بیجنگ، امریکہ کے مقابلے میں عالمی قوت بننے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سٹوڈیمین نے ابھرتے ہوئے چین کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
گذشتہ برس مارچ میں ایک ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سٹوڈیمین نے کہا تھا کہ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کی چینی قیادت کے تحت رہنے یا اس کے زیر اثر ہونے کا کیا مظلب ہوتا ہے۔ انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ جلد ہی چینی فوجی قیادت اس قابل ہو گی کہ ہر اس مقام پر اپنے وہ فوجی روانہ کرے جہاں اس کے مفادات کو خطرہ ہو۔
سٹوڈیمین امریکی فوج کے واحد عہدیدار نہیں ہیں جنہوں نے چین سے درپیش خطرے سے آگاہ کیا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن بارہا چین کو پپنٹگان کے لئے بڑھتا ہوا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔
اس طرح امریکی سنٹرل کمان کے عہدیدار بھی کہہ چکے ہیں کہ چین مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔
اور امریکہ کی سدرن کمانڈ نے وسطی اور جنوبی امریکہ میں چین کی سرگرمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے؛ حتیٰ کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے خلاف عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
میونخ میں ایک سیکیورٹی کانفرنس کے موقعے پر صدر بائیڈن نے کہا تھا، "بحرالکاہل کے پار امن کے حصول، اپنی قدروں کے دفاع اور خوشحالی کے فروغ کے لئے امریکہ، یورپ اور ایشیا کی مشترکہ کوششیں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔"
اس سال کے شروع میں امریکی محکمہ دفاع نے ایک ٹاسک فورس ترتیب دی تھی جس کا مقصد چین کے بارے میں امریکی حکمت عملی کا جائزہ لینا اور اپنی سفارشات پیش کرنا ہے۔