2010 کی مردم شماری کرنے میں جو گروپ سینسس بیورو Census Bureau کی مدد کر رہےہیں ان میں امریکن مسلم انٹریکٹو نیٹ ورک American Muslim Interactive Network بھی شامل ہے۔ یہ گروپ جسے مختصراً AMIN کہتے ہیں،
واشنگٹن میں قائم تنظیم ہے جو کمیونٹی کی خدمت اور سماجی سرگرمیوں کو فروغ دیتی ہے ۔ AMIN کے صدر Hazmi Barmada نے حال ہی میں مقامی مسلمانوں کو مردم شماری کے بارے میں Muslim Voices Matter کے عنوان پر ایک مجلس مذاکرہ میں مدعو کیا۔ انھوں نے کہا’’اس قسم کے پروگراموں کے ذریعے عام لوگ براہ راست سینسس بیورو کے عملے کی بات سن سکتے ہیں اور ان سے سوالات کر سکتے ہیں۔ اس طرح لوگوں میں مردم شماری کی پالیسیوں اور طریقوں کا شعور پیدا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کمیونٹی میں سرگرم ہونے کی اہمیت کو بھی سمجھیں گے۔‘‘
Barmada نے بتایا کہ اس مجلس مذاکرہ میں موجود لوگوں نے مردم شماری کے بارے میں بہت سے سوالات کیے ۔ انھوں نے پوچھا کہ مردم شماری کیوں اہم ہے، مردم شماری کا بیورو جو معلومات اکٹھی کرتا ہے اس سے کیاکام لیا جاتا ہے، کیا مردم شماری سے لوگوں کی شہریت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ سب سوالات امریکی مسلمان کمیونٹی کے لیے اہم ہیں ، خاص طور سے اس لیے بھی کہ PATRIOT Act کے پاس ہونے کے بعد ہونے والی یہ پہلی مردم شماری ہے ۔
اس قانون کے تحت جو نائن الیون کے حملوں کے بعد منظور کیا گیا تھا، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ٹیلیفون کالز، ای میل اور مالی اور طبی ریکارڈز کے ذریعے ایسے لوگوں کی شناخت کر سکتی ہیں جن کے بارے میں دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کا شبہ ہو اور اس بنیاد پر انہیں حراست میں لے سکتی ہیں اور ملک سے نکال سکتی ہیں۔ عرب اور مسلمان امریکیوں کے گروپس کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعے ان کی کمیونٹیوں کا غیر منصفانہ انداز سے نشانہ بنایا گیا ہے ۔
Muslim Voices Matter کے پینل کے مردم شماری کے ریجنل ڈائریکٹر Philip Lutz نے یقین دلایا کہ مردم شماری میں جو معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں وہ پوری طرح محفوظ رکھی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا’’مردم شماری میں صرف اعداد و شمار اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ یہ معلومات وفاقی ایجنسیوں سمیت کسی کو بھی فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ ان معلومات پر Freedom of Information Act کا اطلاق نہیں ہوتا، یہ عدالتی احکامات سے مستثنیِ ٰ ہیں، یہ PATRIOT Act سے مستثنیٰ ہیں۔ کانگریس نے آبادی کی صحیح گنتی کو اتنی زیادہ اہمیت دی ہے کہ اس نے فارم بھرتے وقت لوگوں کو تحفظ کا احساس دلانے کے لیے انتہائی سخت قوانین بنائے ہیں۔‘‘
ان فارموں پر دیے ہوئے اعداد و شمار سے یہ تعین کیا جاتا ہے کہ ایوان نمائندگان کی 435 نشستیں کس طرح تقسیم کی جائیں گی۔ وفاقی حکومت ہر سال چار سو ارب ڈالر کی رقم ریاستوں اور مقامی حکومتوں کو اسکولوں ، ہسپتالوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز کی تعمیر کے لیے دیتی ہے اور اس رقم کی تقسیم میں مردم شماری کے اعداد و شمار سے رہنمائی حاصل کرتی ہے ۔سینسس بیورو کے Philip Lutz کہتے ہیں کہ ان کی ایجنسی کمیونٹی کی تنظیمو ں پر انحصار کرتی ہے کہ وہ لوگوں میں مردم شماری کے بارے میں شعور پیدا کریں تا کہ کسی گروپ کی گنتی غلط نہ ہو۔
ورجینیا میں دارلحجراہ اسلامک سنٹر Dar al-Hijrah Islamic Center ایسی ہی ایک تنظیم ہے ۔ امام جوہری عبد المالک اس تنظیم کے عوامی رابطے کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ 2010 کی مردم شماری میں ضرور حصہ لیں۔ وہ فارم بھرنے میں سب کی مدد کو تیار ہیں۔ ’’یہاں دارالحجرہ میں ایک چیز جو بڑی اہم ہے وہ یہ ہے کہ مردم شماری کے لیے ایسے کارکن فراہم کیے جائیں جو کمیونٹی میں ، عربی زبان میں یا اردو میں یا کسی اور زبان میں مدد کر سکیں۔ ہم ایسے افراد کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر وہ ٹیسٹ پاس کر لیتےہیں تو پھر وہ سینسس کے لیے کام کرنے لگتے ہیں اور فارم بھرنے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
عبد المالک یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بعض امریکی مسلمان اس بارے میں محتاط ہیں کہ حکومت جس نے انہیں نائن الیون کے بعد اتنی زیادہ شک و شبہے سے دیکھا تھا، اب ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا چاہتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگو ں کو بتاتے ہیں کہ مردم شماری میں صرف آپ کا نام، نسل اور گروہ پوچھا جاتا ہے۔ آپ کا مذہب نہیں پوچھا جاتا۔ امریکی مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ مردم شماری میں حصہ لیں تا کہ تعلیم، صحت اور دوسری خدمات میں اپنا حصہ حاصل کر سکیں، صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ہمسایوں اور اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے بھی۔
امام جوہری کا نقطہء نظر سننے اور سینسس بیورو کے عہدے دار سے اپنے سوالات کا جواب لینے کے بعد، AMIN کے صدر Hazami Barmada کو امید ہے کہ امریکی مسلمانوں کی کمیونٹی یہ بات سمجھ گئی ہے کہ وہ فوائد حاصل کرنے کے لیے جن کے وہ مستحق ہیں، انہیں مردم شماری میں حصہ لینا چاہیئے ۔