امریکی مسلمان دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے کے حق میں

بہت سے مسلمان جو امریکہ میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ’’اسلام‘‘ کے نام پر انتہا پسند نظریات کو پھیلنے سے روکیں۔

امریکہ میں لگ بھگ 70 لاکھ مسلمان آباد ہیں، جن میں سے بہت سوں کے لیے داعش کی طرف سے یا اس سے متاثر ہو کر کیے گئے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد مسلمانوں کو اپنے مذہب سے متعلق سوالات اور امریکی معاشرے میں ضم ہونے کی کوششوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اسلامی قانون کے ماہر امریکی احمد مشال نے کہا کہ ’’ہم امریکہ میں آبادی کا حصہ ہیں۔ ہم امریکی تاریخ کے شروع سے ہی اس تانے بانے کا حصہ ہیں۔‘‘

بہت سے مسلمان جو امریکہ میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ’’اسلام‘‘ کے نام پر انتہا پسند نظریات کو پھیلنے سے روکیں۔

شمالی ورجینیا کے اسلامک سنٹر میں اختتام ہفتہ سیکڑوں مسلمان عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں اور جمعہ کو لگ بھگ 2,000 افراد جماعت میں شریک ہوتے ہیں۔

ان افراد میں نئے آنے والے اور پہلی، دوسری اور تیسری نسل کے مسلمان امریکی شامل ہیں جن میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ تنہا اور دوسروں سے کٹ کر رہنے والے مسلمانوں سے میل جول ضروری ہے کیونکہ ایسے افراد آسانی سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہو کر دہشت گرد بن سکتے ہیں۔

جائیداد کا کاروبار کرنے والے علی اسن علین سید کا کہنا ہے کہ ’’مسلمان برادری سے مزید افرد کو آواز بلند کرنی چاہیئے جو اپنے مذہب سے یکجہتی اور حمایت کا اظہار کر سکیں جسے بہت غلط لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

آئی ٹی سپشلسٹ ذاکر چوہدری کا کہنا ہے کہ اسلام کے اصل پیغام کے بارے میں آگہی پیدا کرنا امریکی مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے۔

’’کچھ ایسے گروہ ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے دین کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ ہماری برادری خصوصاً اور قوم عموماً اس بات سے آگاہ ہو۔‘‘

گزشتہ چند سال کے دوران کیے گئے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ مسلمان امریکہ میں مشتبہ دہشت گردوں کو پکڑوانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

پیو سروے میں معلوم ہوا کہ امریکہ میں لگ بھگ نصف مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے مذہبی رہنما مسلم شدت پسندی کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے۔

شمالی ورجینیا میں اسلامک سنٹر کے صدر محمد فاروق نے کہا کہ ’’مسلم رہنما طویل عرصہ سے خاموش ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم کھڑے ہوں اور ان لوگوں کے ہاتھوں سے اپنا مذہب واپس لیں جنہوں نے اسے یرغمال بنا رکھا ہے۔‘‘