نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ افغانستان سے اتحادی فوج کی واپسی "شرائط کی بنیاد پر" ہوگی۔ نیٹو رہنماوں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے سٹولٹن برگ نے کہا کہ "طالبان کو تشدد میں کمی لانے اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپوں کی حمایت ترک کرنے کی شرائط پوری کرنی" ہونگی۔
نیٹو ملکوں کے دو روزہ ورچوئل اجلاس میں جو بدھ کو شروع ہوا، ان ملکوں کے وزرائے دفاع نیٹو اتحاد کو درپیش اہم معاملات پر غور کر رهے ہیں ۔ اس اجلاس میں افغانستان میں موجود پچیس سو امریکی اور سات ہزار اتحادی افواج کی موجودگی سے متعلق معاملات پر گفتگو ہونا طے ہے۔
طالبان نے ہفتے کے روز ایک بیان میں نیٹو کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنا بیس سال سے جاری اس تنازعے میں شامل کسی فریق کے مفاد میں نہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نیٹو کے وزارتی اجلاس میں شرکت کرنے والے امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن کی کوشش ہوگی کہ نیٹو اتحاد کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنایا جائے، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کےدور میں متاثر ہوئے تھے۔
نیٹو اتحادیو ں سے اندازِ گفتگو میں یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں رونما ہو رہی ہے جب امریکہ اور اس کے نیٹو حلیف ممالک کو ایک طرف تو افغانستان میں فوجوں کی تعداد کے متعلق فیصلہ کرنا ہے اور دوسری طرف روس اور چین سے نمٹنا ہے جو موجودہ عالمی نظام کا اپنے مفادات کی طرف جھکاؤ چاہتے ہیں۔
مبصرین کو توقع ہے کہ امریکی وزیر دفاع آسٹن اس بات پر زور دیں گے کہ ان مسائل پر پیش رفت کا دارو مدار نیٹو اتحاد کو پھر سے ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے سے ممکن ہو گا۔
انہوں نے اخبار دی واشنگٹن پوسٹ میں چھپے ایک مضمون میں لکھا کہ ٹیمیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب ہر کھلاڑی کی عزت ہو اور اس پر اعتماد کیا جائے۔ اور ہمار ے اتحاد میں شامل ہمارے ساتھیوں نے ہمیشہ اس طرح کی عزت کو محسوس نہیں کیا۔
انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ 'ہمیں ایک دوسرے سے مشاورت کرنا چاہیے، فیصلے اکٹھے کرنا چاہئیں اور ان پر عمل بھی اکٹھے کرنا چاہئیں'
آسٹن اور دوسرے اعلی عسکری اہلکاروں نے کہا کہ امریکہ کی انتظامیہ نے نیٹو سےاپنے تعلقات کو مضبوط کرنے پر جلد عمل کیا۔ اس سلسلے میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے اتحاد میں شامل دوسرے ممبران سے فون سے گفتگو کی۔
ایک سرکاری اہل کار نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ گذشتہ چارسالوں میں امریکہ کے ارادوں کے بارے میں کچھ ابہام کا تاثر رہا ہے ۔
اور اب تعلقات کو پھر سے مضبوط کرنے کی خاطر وزیر دفاع آسٹن نیٹو کے حلیف ممالک کو یہ یقین دلائیں گے کہ امریکہ اس اتحاد کے آرٹیکل پانچ کے تحت باہمی دفاع کے وعدے پر فولاد کی طرح قائم ہے۔
SEE ALSO: تشدد میں اضافہ، امن معاہدے پر شبہات، افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا؟اس ماہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بھی امریکہ اور اتحاد کے تعلقات کو بہتر طور پر استوار کرنے کا اظہار کیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کو افغانستان میں تعینات فوجوں کے معاملے پر اس وقت فوری اہمیت کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ امریکہ کو ملک سے مئی کے مہینے تک دو ہزار پانچ سو افواج کےانخلا کا سامنا ہے۔
دفاع کے ایک اعلی اہلکار نے کہا ہے کہ اب تک افغانستان میں افواج کی تعداد کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
اہلکار کے مطابق اب امریکہ کے لیے موقعہ ہے کہ وہ اپنے نیٹو اتحادیوں سے افغانستاں میں فوجوں کے تعداد کے مسئلے پر مشاورت کرے۔ نیٹو ممالک کی افغانستان میں تعینات فوجوں کی تعداد سات ہزار ہے۔
اہلکار نےنیٹو سیکرٹری جنرل کی بات دہراتے ہوئے کہا کہ نیٹو اور امریکہ افغانستان میں ایک ساتھ گئے تھےاور اب وہ ایک ساتھ اس سلسلے میں ردو بدل کریں گے۔ اگر وقت سازگار ہو ا تو ہم مل کر ہی یہاں سے نکلیں گے۔
افغانستان کے حوالے سے یہ خدشات بڑھتے جارہے ہیں کہ امریکہ کا طالبان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ جاری رہ سکے گا یا نہیں؟۔
امریکہ کے دفاعی عہدیداروں نے بارہا اس بات پر خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں بڑی سطح پر جاری ہیں، جس سے یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا طالبان اس معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدے پر قائم ہیں۔
امریکہ کے کچھ سرکاری عہدیدار اس بارے میں پر امید نظر آتے ہیں۔ دفاع کے ایک اعلی اہلکار نے کہا کہ طالبان کے اپنے وعدے پر قائم رہنے کی تمام تر وجوہات موجود ہے۔
اس وقت امریکی وزارت دفاع امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے معاہدہ کا جائزہ لے رہی ہے۔
لیکن کچھ مبصرین کا خیال ہے امریکہ اس وقت افغانستان سے انخلا سے متفق نہیں ہے۔
خطے کے ماہر اور گھوسٹ وارز نامی کتاب کے مصنف سٹیو کول کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں استحکام چاہتی ہےاور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ امریکہ کا 2001 میں شروع کیا گیا انسداد دہشت گردی کا مشن جاری رہے۔
کول کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں بائیڈن انتظامیہ یہ نتیجہ اخذ کرے گی کہ ابھی اس مقصد کے لیے وقت درکار ہے اور 2500 افواج کی تعداد دہشت گردی کےخلاف مشن کے لیے ناکافی ہے۔