ایسے میں جب خلیج فارس کے خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، قائم مقام امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے نیٹو اتحادیوں پر زور دیا ہے کہ اس بات پر بین الاقوامی سطح پر بحث کی جانی چاہیے آیا ایران کے ساتھ کس طرح نبرد آزما ہوا جائے۔
جمعرات کے روز برسلز میں نیٹو صدر دفتر میں رکن ممالک نے بند کمرے میں بات چیت کی۔
مذاکرات کے بارے میں، ایسپر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ انھوں نے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر ایران کی مذمت کریں اور وہ اُس ابتدائی منصوبے میں شریک ہوں، جس میں آبنائے ہرمز کے حکمت عملی کے حامل علاقے کو محفوظ بنانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
ایسپر نے اتحادیوں پر زور دیا کہ فوجی تنازع کو ٹالنے کے لیے ایران کے ساتھ مزید سفارتی انداز اپنانے میں مدد دی جائے۔
ایسپر نے کہا کہ ’’ہم ایران کے ساتھ مسلح تنازع کے خواہاں نہیں ہیں۔ لیکن، ہم خطے میں امریکی افواج اور مفادات کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی ہمارے تحمل کو کمزوری سمجھنے کی غلطی نہ کرے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ زیادہ تر اتحادیوں نے ایران اور حکمت عملی کی حامل آبی گزر گاہوں سے متعلق اقدام کی ضرورت کے حوالے سے امریکی تشویش کا ساتھ دیا۔ لیکن، انھوں نے کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگلے ماہ امریکہ اتحادیوں کو ایک تفصیلی بریفنگ دے گا، تاکہ مزید کسی جارحیت سے نمٹنے کےلیے مل کر مقابلہ کیا جائے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل، ژان اسٹولٹنبرگ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتحادی ان کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں جن کی مدد سے ایران کے ساتھ تناؤ میں کمی لائی جا سکے، جن میں اُس وقت اضافہ آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2015 میں ہونے والے جوہری سمجھوتے سے الگ ہوئے اور ایران پر سخت تعزیرات عائد کیں، جس معاہدے پر عالمی طاقتوں اور ایران نے دستخط کیے تھے۔
امریکی اتحادی معاہدے سے الگ ہونے پر ٹرمپ کے اقدام پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں اور علاقے کی حالیہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، دونوں فریقین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ معمولی غلط قدم کے نتیجے میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔