پاکستانی سیاست کی طرح امریکی سیاست بھی نئے سال کے پہلے ہفتے میں ایک نئی کروٹ لے رہی ہےاور واشنگٹن کی سیاست پر نظر رکھنے والے تبدیلی کی پیشگوئی کر رہے ہیں ۔ امریکی معیشت سنبھلنے کے اشارے دے رہی ہے لیکن ری پبلکن اراکین کی اکثریت والی امریکی کانگریس کو اس سال اس قانون سازی کے تحفظ میں چیلنجز کا سامنا ہے ،جو اوباما انتظامیہ نے پچھلے دو برسوں میں کی ہے ۔
موسم سرما کی چھٹیوں سے واپسی پر صدر اوباما کو ایک ایسی کانگریس سے واسطہ پڑ رہا ہے جس کا کنٹرول ریپبلکن پارٹی کے ہاتھ میں ہے ۔ تاہم وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ میں کسی بھی پارٹی کے کسی بھی فرد کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں ، جس کے پاس کوئی اچھا خیال ہو ۔
ریپبلکن اراکین کا کہنا ہے کہ کانگریس کے نئے سیشن میں تعاون کا مطلب ہے وہ کچھ بدلنا جو ڈیموکریٹک کانگریس نے پچھلے سیشن میں کیا۔ ریپبلکن اراکین کا ایک اہم مقصد صدر اوباما کے صحت کے منصوبے کو ختم کروانا ہے ۔
ری پبلیکن رکن فریڈ اپٹن کا کہنا ہے کہ ہم ہیلتھ کئیر منصوبے کی منسوخی کے لئے جلد از جلد ووٹنگ کرائیں گے۔
اگرچہ اس ووٹ سے قانون تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ امریکی سینیٹ کا کنٹرول اب بھی ڈیمو کریٹک پارٹٰی کے پاس ہے اور صدر اوباما قانون میں تبدیلی کو منظور بھی نہیں کریں گے ۔ لیکن اس ہفتے حلف اٹھانے والے ایک سو نئے ریپبلکن اراکین کانگریس پر اپنے اپنے حلقے کے ووٹروں میں ایک نیا پیغام دینے کا دباؤ موجود ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار ایمی والٹر کا کہنا ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم نے تو اُسی بات کے لئے ووٹ ڈالا جس کا وعدہ کیا تھا مگر قانون بدلنا ہمارے بس میں نہیں۔
دونوں جماعتوں کے درمیان تنازع کی اصل وجہ سرکاری اخراجات پر کنٹرول ہے ۔ اگر کانگریس صدر اوباما کو سرکار ی امور کے لئے مزید رقم ادھار لینے نہیں دیتی تو کاروبار حکومت رک جائے گا۔ اور اگرایسا ہوا تو وائٹ ہاؤس کونسل کے معاشی مشیر آگسٹن گولسبی کے مطابق یہ 2008 کے بعد سے بد ترین معاشی بحران ہوگا ۔
ریپبلکن اراکین کانگریس کے نئے سیشن میں صدر اوباما کی معاشی پالیسیوں پر ، جنہیں وہ وسائل کا زیاں قرار دیتے ہیں ، مزید بحث کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسا غیر جانبداری سے ہوگا ۔
دوسری طرف امریکی ادارہ محنت کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ ہفتے امریکہ میں بے روزگاری الاؤنس لینے والوں کی تعداد جو لائی 2008 کے بعدسے پہلی مرتبہ چار لاکھ سے کم ہوئی ہے ۔ مگر ماہرین ابھی مطمئن نہیں ۔
امریکی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کار سٹاکس کی خرید وفروخت میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں ، اگرچہ کچھ کمپنیوں کے سٹاکس کی قیمتیں ستمبر 2008 کے بعد سے دسمبر میں اپنی ریکارڈ بلند سطح تک پہنچیں ۔ سٹینڈرڈ اینڈ پوور کے معاشی ماہر ایلیک ینگ کو امید ہے کہ یہ رجحان جنوری میں بھی جاری رہے گا ۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ابھی سنبھل رہے ہیں ، گزشتہ سال انہیں سٹاک مارکیٹ کے قریب جانے کا موقعہ نہیں ملا، انہیں معیشت نے فکر مند کر رکھا تھا۔ مگر اس سال وہ سٹاک ایکسچینج میں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی معیشت کی کارکردگی اور یورپ میں قرضوں کے بحران کا اثر عالمی سطح پر پڑے گا مگر امریکی معیشت بھی 2011میں عالمی معیشت کو متاثر کرے گی خصوصا بر آمدات پر مبنی معیشتوں کو ۔
سرمایہ کاروں کو امریکی معیشت کی سمت کا درست اندازہ لگانے کے لئے سات جنوری 2011 کا انتظار بھی ہے جب امریکی ادارہ محنت بے روزگاری کے نئے اعدادو شمار جاری کرے گا ۔