’کرسچن سائنس مانٹر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکیوں کے معیارِ زندگی میں پچھلے تین سال کے دوران جو گِراوٹ آئی ہے وہ عشروں پہلے حکومت کی طرف سے اِس کا ریکارڈ رکھنے کے بعد کے برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
تین سال قبل سرد بازاری کے آغاز کے بعد سے اِس وقت ایک اوسط امریکی کی جیب میں فالتو رقم میں 1315ڈالر کی کمی آئی ہے، باوجود یہ کہ ٹیکنیکل اعتبار سے سرد بازاری2003ء کے وسط میں ختم ہوگئی تھی جِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اوسط امریکی کے پاس چھٹیاں گزارنے، تفریح کرنے، گھر کا فرش بدلنے یا باہر کھانا کھانے کے لیے کم پیسہ ہے۔ مختصر الفاظ میں اِس کا مطلب ہے کہ ملکی معشیت جاندارنہیں ہے اور اُن امریکیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جِن کا پیسہ بنیادی طور پر ضروریاتِ زندگی پر خرچ ہوتا ہے۔
گِرتا ہوا معیارِ زندگی متوسط طبقے پر اثرانداز ہوتا ہے جس کی بیچینی اور بے اطمینانی کا اظہار ٹی پارٹی یا وال سٹریٹ پر قبضے جیسی تحریکوں کی شکل میں ہو رہا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنی محرومیوں کا بدلہ اگلے سال کے انتخابات میں برسرِ اقتدار سیاست دانوں سے لیں۔
1960ء کےبعد سے امریکی معیارِ زندگی میں اس سب سے زیادہ گراوٹ کی وجوہات کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ آمدنیوں کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، بلکہ کساد بازاری کے آغاز سے جون کے مہینے تک حقیقی اوسط آمدنیوں میں 9اعشاریہ 8فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے، مکانوں کی قیمتیں گِر گئی ہیں، اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، جب کہ افراطِ زر کی وجہ سے عوام کی قوت ِ خرید 2008ء کے بعد سے سواتین فی صد گر گئی ہے۔ کساد بازاری کا اثر ہر طبقے پر ایک جیسا نہیں ہوا، اس کا سب سے زیادہ نزلہ کم ہنرمند اور کم تعلیم امریکیوں پر گِرا ہے، بہت سُوں کا روزگار جاتا رہا ہے۔ جن لوگوں کی مالی حالت گِر رہی ہے اُن میں عمر رسیدہ لوگ شامل ہیں جِنھیں اپنی ضروریات اور صحت کی نگہداشت کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
آج کل ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے اور وقتاً فوقتاً اُن کے درمیان مباحثے بھی ہوتے ہیں۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ کے کامل نگار Scott Wheelerرقمطراز ہیں کہ اورلینڈو فلوریڈا میں ری پبلکن امیدواروں کے درمیان جو مباحثہ ہوا اُس میں ایک نئی بات سامنے آئی۔ وہ یہ کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں سیاہ فام امیدوارHerman Caineہرمن کین اِس مباحثے میں پہلے نمبر پر آئے اور اِس کے بعد فلوریڈا میں رائے عامہ کا جو جائزہ لیا گیا تھا اُس میں بھی مسٹر کین ہی کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح، قوم نے پہلی مرتبہ محسوس کرنا شروع کیا کہ مسٹر کین کا اگلے سال کے صدارتی انتخابی مقابلے میں کامیاب ہونے کا امکان ہے۔
پھر 27ستمبر زوگ بی نے رائے عامہ جا جو نیا جائزہ جاری کیا اُس میں بھی مسٹر کین کو باقی امیدواروں کے مقابلے میں زبردست سبقت حاصل تھی۔ کالم نگار کا مسٹر کین کو مشورہ ہے کہ اگر وہ نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اُنھیں یہ بات یاد رکھنے چاہییے کہ اُن کو جو حمایت حاصل ہوئی ہے اُس کی جزوی وجہ قدامت پسندوں کا یہ یقین ہے کہ وہ اپنے اعتقادات سے کبھی منہ نہیں موڑیں گے۔
اُدھر، ایک اور رپورٹ کے مطابق، وسط اکتوبر میں رائے عامہ کے جائزے کے مطابق مسٹر کین کو صدر اوباما پر41فی صد کے مقابلے میں 43فی صد کی سبقت حاصل ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ دو غیر ملکی تیل کمپنیاں جنوبی عراق میں تیل کے تین چشموں کی پیداوار بڑھانے پر ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی۔
اِس وقت اِن چشموں سے دو ملکن بیرل تیل یومیہ نکالا جارہا ہے۔
عراق کی تیل کی مجموعی پیداوار دو اعشاریہ 9ملین بیرل ہے، لیکن 2017ء تک تیل کے صرف اِن تین چشموں کی پیداوار چھ اعشاریہ 8 ملین بیرل ہوجائے گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: