پاکستان نے بون میں اِس ہفتے افغانستان کے بارے میں ہونے والی کانفرنس کابا ئیکاٹ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہےاس پر امریکی اخبارات میں تفصیلی تجزیاتی رپورٹیں چھپ رہی ہیں ۔
’ وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اس اجلاس میں 100 سے زیادہ ممالک کی شرکت متوقع ہے، تاکہ ایسے میں جب امریکہ افغانستان سے سنہ 2014تک اپنی لڑاکا فوجیں واپس لانے کی تیاریوں میں مصروف ہے ،اُس کے مستقبل پر بحث کی جائے ۔ لیکن پاکستان نے ، جِس نے اب تک افغانستان کے اندرونی امور میں بڑا کردار ادا کیا ہے،اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اخبار کی نظر میں یہ امریکہ کے لئے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ جیسا کہ کانفرنس کی میزبان جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے کہا ہے یہ ایک افسوس ناک امر ہے، لیکن نیٹو کے ہاتھوں اُس کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی تشویش قابل فہم ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےبھی پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت کرنے کا قائل کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کو امن مذاکرات کے لئے آمادہ کرے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو یہ امید ہے کہ ایک طرف طالبان کے خلاف فوجی کاروائی کر کے اور دوسری طرف امن مذاکرات کے لئےکوششیں جاری رکھتے ہوئے اس دس سالہ جنگ کو انجام تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن اسلام آباد کی طرف سے کانفرنس کا بائیکاٹ امریکی مقاصد کے لئے ایک دھچکہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلّقات میں بگاڑ کس حد تک امریکہ کی جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔
اخبار پاکستان کے اس دعوے کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اُس نے طالبان سےقطع تعلّق کر رکھا ہے اور ان کے خلاف لڑائی میں3000سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دے چکا ہے۔لیکن، امریکہ کی طرف سےپاکستان پر طالبان کے ساتھ گٹھ جوڑ جاری رکھنے کے الزام اور ایک چھاؤنی والےپاکستانی شہر پر خفیہ امریکی فوجی کاروائی میں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں سرد مہری بڑھ گئی ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل ‘کہتاہے کہ افغان عہدیداروں نے بھی پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ بون کانفرنس کو اختتام ہفتہ پاکستانی فوجی چوکی پر خوفنا ک امریکی فوجی حملے سے پیدا شدہ جھگڑے میں سیاسی فٹ بال کی طرح استعمال نہ کرے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ امن اور استحکام افغانستان کے لئے جتنا اہم ہے اُتنا ہی پاکستان کے لئے بھی ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ ‘ نےمصر میں موسم سرما کے انقلاب کے بعد پہلے عام انتخابات پر کہا ہے کہ دس دن تک تحریر چوک میں ہنگامے جاری رہنے کے بعد، اُن کا آغاز امید افزا تھا۔ اور ووٹروں کی لمبی لمبی قطار یں اس چوک اور چھ دوسرے اضلاع میں دیکھنے میں آئیں۔ ووٹنگ کا یہ پیچیدہ مرحلہ دو درجن دنوں سے زیادہ عرصے اب سے لے کر مارچ کے مہینے تک جاری رہے گا، کسی تشدّد کے واقعے کی اطّلاع نہیں آئی اور ابتدائی اندازوں کے مطابق ووٹروں کی حاضری اُن سابقہ بوگس انتخابات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی جو حسنی مباک کے 30 سالہ دور اقتدار کا خاصہ تھے۔
اِن انتخابات کے مکمّل نتائج کا کچھ عرصے تک پتہ نہ چل سکے گا ۔ اگرچہ یہ معلوم ہے کہ اخوان المسلمین کی قیادت میں منظّم اسلام پسند پارٹیوں کے بارے عام توقعات یہ ہیں کہ وہ پہلے نمبر پر آئیں گی۔ اگرچہ قلیل وقتی نقطہء نگاہ سے سب سے زیادہ کامیاب دھڑا ملک کی حکمران فوجی کونسل ہوگی ، جِس نے قاہرہ میں منظّم اور نسبتاً آزادانہ انتخابات کرائے،جِس کی وجہ سے شاید عوامی بغاوت فرو ہوگئی۔ پچھلے ہفتے لوگوں کےجم غفیر کا تحریر چوک میں پولیس اور فوج سے تصادم ہوا تھا لیکن انتخابات کے آغاز پر دونوں غائب تھے ۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اِس سکوت سے دھوکہ بھی ہو سکتا ہے ۔ 20 روز کی ووٹنگ کے علاوہ جسے ابھی مکمل ہونا ہے، کامیاب انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ فوجی کونسل اُن کا احترام کرے جِس کا اُس نے اب تک وعدہ نہیں کیا ہے اور نہ اس کا وعدہ کیا گیا ہے کہ منتخب پارلیمنٹ کو اپنی حکومت بنانے دی جائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ اُس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیے جانے کی بھی کوشش جاری ہے جِس کی 8 ماہ قبل ایک ریفرنڈم کے ذریعے توثیق کی گئی تھی اور جس کے تحت نئی پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وُہی آئین مرتّب کرنے والی کمیٹی کے ارکان منتخب کرنے کی مجاز ہے۔
اخبار کے بقول فوجی کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین تنتا وی ایک نیوز کانفرنس میں برملا کہہ چکے ہیں کہ اُن کا مقصد یہ بات یقینی بنانا ہے کہ نئے سیاسی نظام میں اور جون کے مہینے میں نئے صدر کو اختیار سونپنے کے بعد بھی فوج کی طاقت کو کوئی چیلنج نہ کر سکے۔
لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ انتخابات کے آنے والے ادوار میں اگر ووٹروں نے اسی بھاری تعداد میں اور پرامن طریقے سے ان میں شرکت کی تو فوج کے عزائم پر روک لگائی جا سکے گی، اور اغلب یہی ہے کہ تیونس کی طرح مصر میں بھی بالآخر اسلامی اور سیکیولر طاقتیں ایک مخلوط حکومت بنائیں گی۔