پاکستان نے کہا ہے کہ وہ خطے اور دنیا میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے۔
یہ بات وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر سے گفتگو میں کہی جنہوں نے پیر کو ان سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔
یہ میک ماسٹر کا بطور مشیر قومی سلامتی، پاکستان کا پہلا دورہ جب کہ جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں بننے والی نئی امریکی انتظامیہ کے کسی بھی اعلیٰ ترین عہدیدار کی پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے پہلی براہ راست ملاقات تھی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق نواز شریف نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں مزید فروغ کے خواہاں ہیں۔
انھوں نے امریکی عہدیدار سے گفتگو میں پاکستان کے پرامن ہمسائیگی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے انھیں افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے اپنے ملک کی طرف سے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم نے افغانستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان مسئلے کے حل کی راہ تلاش کرنے میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر اتوار کو افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان آئے تھے جہاں انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ سمیت اعلیٰ عہدیداران شریک ہوئے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ امریکی مشیر نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔
"طرفین کا یہ خیال تھا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی بہت اہم ہے۔"
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ جنرل میک ماسٹر نے پاکستان کی جمہوری اور اقتصادی ترقی کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات خاص طور پر سابق صدر اوباما کی انتظامیہ کے آخری حصے میں سرد مہری کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مشترکہ مفادات کے حصول میں درکار تعاون کے نہ ملنے کی شکایت تھی۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ اور سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ میک ماسٹر کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضروریات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے ایک دوسرے سے متعلق بلواسطہ یا بلاواسطہ تحفظات موجود ہیں اور ایسے اعلیٰ سطحی رابطوں سے تعلقات میں بہتری کی مثبت توقعات پیدا ہوتی ہیں۔
"میرا خیال ہے ٹرمپ انتظامیہ اگر افغانستان میں بہتر صورتحال چاہتی ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھیں۔ اسی انداز سے پاکستان کو امریکہ کی ضرورت ہے جیسے کہ امریکہ کو پاکستان کی تو دونوں ملک باہمی ہم آہنگی کے تحت تعاون رکھیں گے تو یہ دونوں کے مفاد میں ہے۔"
پاکستان کے اپنے مشرقی پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ بھی تعلقات حالیہ مہینوں سے انتہائی کشیدہ چلے آ رہے ہیں جن میں بہتری کے لیے امریکہ دونوں ملکوں کو تحمل سے کام لیتے ہوئے بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتا آ رہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل میں مدد کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک سمجھتا ہے کہ تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کا واحد راستہ پائیدار مذاکرات اور بامعنی رابطوں میں ہی مضمر ہے۔