امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹس نے ہفتہ کو جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی جس میں مقامی میڈیا کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ اور حقانی نیٹ ورک کا معاملہ زیر بحث آیا۔
اعلیٰ امریکی فوجی عہدے دار ایک ایسے وقت پاکستان کے دورے پر پہنچے ہیں جب انسداد دہشت گردی میں بعض اُمور پر باہمی اختلافات پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں امریکی فوجی و سول عہدے داروں نے باربار یہ الزام لگایا ہے کہ امریکہ مخالف عسکری تنظیم حقانی نیٹ ورک پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی معاونت سے افغانستان میں امریکی افواج اور اہداف پر مہلک حملے کر رہی ہے۔
لیکن پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان الزامات کو افسوس ناک اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ اُن کے بقول یہ الزامات پاکستان کے خلاف سرعام الزام تراشی کی مہم کا حصہ ہیں اور یہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ہفتہ کو پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے انٹرویو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ذرائع ابلاغ کے ذریعے سفارت کاری کو فروغ دینے کا راستہ نہیں اپنائے گا کیونکہ خارجہ پالیسی میڈیا کے ذریعے نہیں چلائی جاتی ہے۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ اگردو طرفہ تعلقات میں کشیدگی بڑھتی رہی تو اس کے ’’نتائج انتہائی سنگین ہوں گے‘‘ اور امریکہ کی طرف سے ریاست پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے بے بنیاد الزامات کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اس لیے کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے رابطوں کا الزام بلا جواز ہے۔ ’’اگر آپ کو اپنے اکثر مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو آپ کسی اور کو قربانی کا بکرا نہیں بناتے۔‘‘
امریکہ کی طرف سے اپنی افواج پاکستان کی سرزمین پر اُتارنے کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا ’’اس اقدام سے بہت سے دروازے اور راستے کھل جائیں گے۔‘‘ تاہم حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کو مسلسل رابطوں کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور وہ چاہیں گی کہ الزام تراشی کی مہم کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ آئی ایس آئی کے رابطوں یا پھر افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں میں معاونت کے امریکی الزامات کا مقصد پاکستان پر نفسیاتی دباؤ بڑھانا ہے ۔
وزیر داخلہ رحمن ملک کے بقول اگر امریکہ کے پاس اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد ہیں تو وہ پاکستان کو فراہم کرے تاکہ ایسے عناصر کے خلاف مناسب کارروائی کی جاسکے۔