واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے بہتر تعلقات کے حق میں لابی کرنے والی تنظیم پاکستانی امریکی کانگریس کے صدر ڈاکٹر خالد لقمان نے اپنے سالانہ اجلاس کے دوران وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ماضی میں ان کی تنظیم موثر انداز میں پاکستان کا موقف امریکی قانون دانوں تک نہیں پہنچا سکی، جس کی وجہ ان کے مطابق ’’ کچھ تنظیمی خرابیاں تھیں۔” البتہ ان کا کہنا تھا کہ ان خرابیوں پر قابو پا لیا گیا ہے اور وہ اگلے ایک سال میں اس تنظیم کو موثر بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔
1990 میں شروع کی گئی پاکستانی امریکی کانگریس کا پیر کو بیسواں سالانہ اجلاس تھا جس میں امریکہ میں پاکستان کی سفیر شیری رحمان اور امریکی محکمہ خارجہ کی پاکستان کے لیے مشیر ایمبیسیڈر رابن رافئیل بھی شریک تھیں۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ’’ اگر پاکستانی سفارت خانہ ان سے مل کر کوششیں کرے تو نہ صرف بہتری آ سکتی ہے بلکہ ہماری آواز کی گونج دور تک جائے گی۔ ”
جبکہ امریکی مشیر رابن رافئیل نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران زور دیا کہ امریکہ پاکستان میں استحکام چاہتا ہے اور اسی لیے ایک ایسی پالیسی پر گامزن ہے جس کے ذریعے ان کے بقول مستقبل میں پاکستان بیرونی ممالک سے امداد نہیں بلکہ تجارت پر انحصار کر سکے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایمبیسیڈر رافئیل نے بتایا: ’’ ہم دو طرفہ تجارتی معاہدے پر کام کر رہے ہیں ۔ جس سے امریکیوں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری آسان ہو جائے گی۔ اگرچہ مستقبل قریب میں کیری لوگر برمن بل کے تحت دو طرفہ امداد جاری رہے گی لیکن اس طریقے سے ہمارا حدف یہ ہے کہ مستقبل میں پاکستان معاشی طور پر خود پر انحصار کر تاکہ اسے اپنی ضروریات کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت نہ رہے۔”
اسی تقریب کے دوران ایک امریکی خاتون جین سورٹز نے اٹھ کر کمرے میں موجود پاکستانیوں سے سوال کیا کہ جب امریکہ میں معاشی حالات خراب ہیں اور خود یہاں پر لوگوں کو نوکریوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو وہ پاکستان میں غریب لوگوں کی مدد کیوں کر کریں۔ امریکی خاتون کا کہنا تھا کہ امریکہ میں بہت سے امیر پاکستانی رہتے ہیں جن میں سے اکثر ڈاکٹر یا وکیل ہیں۔ اگر وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں آگے بڑھ کر کرنا چاہیے، ناکہ امداد کا مطالبہ کرنا چاہیے جو کہ ان کے بقول امریکہ میں ٹیکس دینے والے اُن جیسے غریب لوگوں کی جیب سے جاتی ہے۔
لیکن اس کے جواب میں ڈاکٹر لقمان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں اور پاکستان میں بہت سے انسٹیٹیوشنز یا ہسپتال اوورسیز پاکستانیوں کے پیسے سے بنے ہیں اور چل رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اس بات کی مشہوری نہیں کی جاتی اس لیے یہ کام لوگوں کو نظر نہیں آتے اور باہر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی ان کی امداد پر زندہ ہیں۔