پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کو امریکہ میں بھی بڑی توجہ اور دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ جنوبی ایشیا کا ایک اہم اور جوہری قوت کا حامل ملک ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کی طویل تاریخ ہے، جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔
پاکستان کے انتخابات کے بارے میں وی او اے اردو سروس نے امریکی کانگریس کے دو ارکان سے بات کی۔ دونوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے استحکام اور ترقی کے لیے انتخابات منصفانہ اور آزادانہ ہونے چاہیئں۔
امریکی رکن کانگریس وومن شیلا جیکس لی نے،جو امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کاکس کی بانی اور چیئر ہیں کہا ہے کہ پاکستان میں آٹھ فروری کو آزادانہ انتخابات ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے بڑے ملک کے لیے، ایک ایسے مسلمان ملک کے لیے جو پاکستان جتنا بڑا ہو، آزادانہ انتخابات کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں جمہوری حکومت قائم ہو ۔
امریکی رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان کی موجودہ اور (سابقہ ) اتحادی حکومت کے ساتھ اور امریکہ میں اور پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں سے بات چیت کی ہے، اور ہم بہترین کی امید کر رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان کے کئی سیاسی رہنماؤں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قبل از انتخابات تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، کیا امریکہ کو بھی پاکستان میں انتخابات سے قبل ہونے والے تشدد کے بعض واقعات پر تشویش ہے؟
شیلا جیکسن لی نے کہا کہ حوصلہ افزا بات ہے کہ یہ تشدد اس سطح کا نہیں ہے جتنا میں نے اس سے پہلے دیکھا ہے، لیکن یقینی طور پر جب بھی تشدد ہوتا ہے، جانی نقصان ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام، نئے ووٹرز، نوجوان ووٹرز کے لیے اس بات کو یقینی بنانا اہم ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے قابل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں پاکستانی عوام سے کہنا چاہتی ہوں کہ یہ آپ پر ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ انتخابات آزادانہ اور تشدد سے پاک ہوں گے، جمہوری ہوں گے تاکہ آپ کی آواز سنی جائے، اور ان کی آوازیں (نہ سنی جائیں) جو آپ کو دھمکانا چاہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ سیاسی رہنما اور مبصرین انتخابات میں کسی ممکنہ سیاسی انجینئیرنگ کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں، اگر ایسا ہوا تو کیا امریکہ اقتدار میں آنے والی حکومت کی حمایت کرے گا؟
شیلا جیکسن لی کا کہنا تھا کہ ہم انتخابات میں ووٹروں کی اصل آواز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ امریکہ انتخابات کی ساکھ کا تعین اپنے مبصرین اور یقیناً پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی رابطوں کے ذریعے کر سکے گا۔ اور ہم ووٹوں کی گنتی پر انحصار کریں گے اور اس بات پر کہ جو لوگ منتخب ہوئے ہیں وہ ایک حکومت قائم کرنے کے قابل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کے قوانین کے مطابق دیکھنا ہوگا کہ کیا لوگوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے کریں گے اور ان بین الاقوامی تعلقات کے ذریعے، جو پاکستان کی جانب سے آزاد انتخابات کروانے کے وعدوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ لہٰذا بہت سے فریق یہ جائزہ لیں گے کہ آیا یہ انتخابات آزاد ہیں یا نہیں، اس سے پہلے کہ ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ انتخابات میں گڑ بڑ کیسے کی گئی۔
اس سوال پر کہ اس وقت جب امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کی حمایت کا تاثر موجود ہے، کیا اب خطے میں امریکی مفادات کے لیے پاکستان کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے؟
شیلا جیکسن لی کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ان کے بقول، افغان جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کا اتحادی رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی امریکہ نے پاکستان کی خدمات حاصل کی ہیں اور یہ تعلق مزید مضبوط ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات پاکستانی عوام کے لیے ایک اہم سنگ میل ہیں۔ آزاد انتخابات اور جمہوریت بہت انمول ہیں۔ ان کے بقول آٹھ فروری کی ووٹنگ کو ہونے دیں۔ قانون نافذ کرنے والے اور حکومت کی نمائندگی کرنے والے پاکستانی عوام کی حفاظت کریں، اور دہشت گردوں کو پیچھے دھکیل دیں تاکہ آزادانہ انتخابات ہوں اور ایک آزاد حکومت بنے جو پاکستانی عوام کے لیے جمہوریت اور آزادی پر مبنی ہو۔
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے وائس آف امریکہ اردو سروس کے ایک سوال پر ڈیموکریٹک کانگریس مین بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں وہ توقعات سے بہت ہی نیچے ہے۔ انہوں نے "بلے" پر پابندی لگا دی اور پھر انہوں نے "بلے باز" پر پابندی لگا دی۔ اور دوسری طرف بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ امریکہ اس امیدوار کی یا اُس امیدوار کی حمایت کر رہا ہے یا اس امیدوار نے امریکہ یا دوسرے امیدوار کے بارے میں یہ کہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے متعلق سوال کے جراب میں ان کا کہنا تھا کہ جو بات اہم ہے وہ جمہوری عمل ہے۔ میں پاکستانی آئین کا وکیل نہیں ہوں۔ لیکن جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک سرکردہ امیدوار انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہے، ایک سرکردہ جماعت، اپنے امیدواروں کو بطور پارٹی چلانے سے قاصر ہے، تو آپ دنیا کے سب سے زیادہ جمہوری ممالک میں ایسا ہوتے نہیں دیکھتے۔ اس وقت تو سیاسی جماعتیں اور تجزیہ کار دونوں نے ہی انتخابات میں پس پردہ ہونے والی سیاسی انجینئرنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انتخابات کے بعد پاکستان کی نئی سیاسی حکومت سے امریکہ کے تعلقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بریڈ شرمین کا کہنا تھا کہ امریکہ کے لیے یہ اہم نہیں کہ کون اقتدار میں ہے، بلکہ یہ کہ وہ اقتدار میں کیسے آئے؟ کیا یہ منصفانہ نظام تھا؟ اور جمہوریت کے لیے میری قوی رائے ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کا ساتھ دے رہا ہے، یہاں تک کہ جب یہ ہمارے فوری سیاسی مفاد میں نہ بھی ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستان میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کی حمایت کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ کون منتخب ہوتا ہے۔