ترجمان جے کارنی کا کہنا تھا کہ "تعلقات میں کشیدگی کے ساتھ ساتھ انھیں دور کرنے کے لیے ہم کام کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے مشترکہ مفادات وسیع تر ہیں۔"
امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بعض کشیدگیوں اور بسا اوقات "غلط فہمیوں" کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پیش رفت جاری رہنے کی امید کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہائوس کے ترجمان جے کارنی نے نیوز بریفنگ میں کہا ہے کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و سلامتی کے معاملات سمیت تمام باہمی مفادات کے لیے تعاون کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
انھوں نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق تو نہیں کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ حکیم اللہ کو پاکستانی طالبان کے گروپ تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کا سربراہ سمجھتا تھا جس نے مئی 2010ء میں نیو یارک اسکوائر پر ناکام بم حملے کا اعتراف کیا۔
جے کارنی کے بقول حکیم اللہ محسود اور ٹی ٹی پی کے دیگر کمانڈرز کھلے عام امریکہ اور اس کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ " وہ 30 دسمبر 2009ء کو افغانستان کے صوبہ خوست میں سات امریکی شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے پر بھی امریکہ کو مطلوب تھا۔"
ترجمان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کو امریکی محکمہ خارجہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور اس کا القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے "جس نے بے شمار دہشت گردانہ حملے کیے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان میں بھی۔"
جے کارنی کا کہنا تھا کہ "تعلقات میں کشیدگی کے ساتھ ساتھ انھیں دور کرنے کے لیے ہم کام کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے مشترکہ مفادات وسیع تر ہیں۔ ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہم یہی کوشش کر رہے ہیں۔"
گزشتہ ہفتے مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے شدت پسندوں کے ساتھ حکومت کے مذاکراتی عمل کے لیے شدید دھچکا قرار دیا تھا۔
پاکستان میں اس واقعے کے بعد امریکہ سے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کی بحث جاری ہے۔
وائٹ ہائوس کے ترجمان جے کارنی نے نیوز بریفنگ میں کہا ہے کہ امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی و سلامتی کے معاملات سمیت تمام باہمی مفادات کے لیے تعاون کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
انھوں نے پاکستان کے قبائلی علاقے میں ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی تصدیق تو نہیں کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ حکیم اللہ کو پاکستانی طالبان کے گروپ تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کا سربراہ سمجھتا تھا جس نے مئی 2010ء میں نیو یارک اسکوائر پر ناکام بم حملے کا اعتراف کیا۔
جے کارنی کے بقول حکیم اللہ محسود اور ٹی ٹی پی کے دیگر کمانڈرز کھلے عام امریکہ اور اس کے شہریوں کو نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کرتے رہے ہیں۔ " وہ 30 دسمبر 2009ء کو افغانستان کے صوبہ خوست میں سات امریکی شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے پر بھی امریکہ کو مطلوب تھا۔"
ترجمان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کو امریکی محکمہ خارجہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے اور اس کا القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلق رہا ہے "جس نے بے شمار دہشت گردانہ حملے کیے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان میں بھی۔"
جے کارنی کا کہنا تھا کہ "تعلقات میں کشیدگی کے ساتھ ساتھ انھیں دور کرنے کے لیے ہم کام کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے مشترکہ مفادات وسیع تر ہیں۔ ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہم یہی کوشش کر رہے ہیں۔"
گزشتہ ہفتے مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے شدت پسندوں کے ساتھ حکومت کے مذاکراتی عمل کے لیے شدید دھچکا قرار دیا تھا۔
پاکستان میں اس واقعے کے بعد امریکہ سے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کی بحث جاری ہے۔