پاکستان نے امریکہ سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیےلابی فرم کی خدمات حاصل کرلیں 

فائیل فوٹو

پاکستان نے امریکہ سے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے اور واشنگٹن میں اپنے مفادات کو بڑھانے کے لیے لابی کرنے والی ایک کمپنی، براون سٹائین کی خدمات حاصل کی ہیں۔

اس سلسلے میں امریکی جریدے، پولیٹکو کے مطابق حکومت پاکستان اور براؤن سٹائین ہایئٹ فاربر نامی فرم کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت لابی کرنے والے ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان اور امریکہ میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو مضبوط کرنے پر کام کرے گی۔

واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے کی ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایمبیسی نے پاک امریکہ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں براؤن سٹائین فرم کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

امریکی جریدے کے مطابق پاکستان نے اس کمپنی کی خدمات ماہانہ ایک لاکھ ڈالرز کے عوض حاصل کی ہیں اور یہ رقم ہر تین ماہ بعد ادا کی جائے گی۔ لابی کرنے والے ماہرین میں سابق سینیٹر مارک بیگیچ بھی شامل ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا امریکہ اور پاکستان کے تعلقات نظریۂ ضرورت کے تحت قائم ہیں؟

کمپنی کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے محل وقوع اور ایران اور چین کے قریب ہونے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے ممالک کے لیے ایک اہم ملک ہے۔

بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں خطے کے حالات مختلف ہیں اور امریکہ بھی اس وقت چین کے ساتھ جاری مسائل اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کی یہ کوشش کہاں تک کامیاب ہوگی اور نئےحالات میں پاکستان سفارت کاری اور لابی کےذریعے واشنگٹن میں اپنا کیس کیسے بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے اور پاکستان امریکہ تعلقات میں کون سے عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں۔

ان سوالات پر بات کرنے کے لیے وائس آف امریکہ نے واشنگٹن میں قائم ادارے 'پولیٹیکٹ' تحقیقی ادارے کے تجزیہ نگار عارف انصار سے بات کی۔

عارف انصار کہتے ہیں کہ یہ عام سی بات ہے کہ واشنگٹن میں مختلف ممالک اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے لابی کرنے والی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

لیکن، ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان کہاں تک اپنے مفادات کی حفاظت میں کامیاب ہو پاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان اب تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کیوں ہے؟

مزید وضاحت کرتے ہوئے عارف انصار نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ میں اس وقت کچھ اہم معاملات پر ہم آہنگی نظر آتی ہے، جبکہ بہت سے دوسرے معاملات پر پاکستان کو اپنی سفارت کاری تیز تر اور موثر کرنا ہوگی۔

مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے پر امریکہ اور پاکستان دونوں یہ چاہتے ہیں کہ وہاں پر آبادی کے تمام گروپوں کو قومی حکومت میں نمائندگی حاصل ہو اور خواتین کے حقوق کی حفاظت ہو۔

دوسری طرف پاکستان کو امریکہ کی ایف اے ٹی ایف فورم پر حمایت درکار ہے اور خطے کے نئے حالات اور امریکہ کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ اس کے چین اور امریکہ سے تعلقات کی نوعیت زیرو سم گیم کی سی نہیں ہے، یعنی دونوں میں سے ایک ملک سے تعلقات دوسرے کی قیمت پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ اسلام آباد دونوں بڑے ممالک سے بیک وقت بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان کے لیے امریکہ کا تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون بھی بہت اہم ہے۔ بقول ان کے، "میں سمجھتا ہوں کہ واشنگٹن کی کوئی لابی کرنے والی کمپنی پاکستان کی ترجیحات اور مفادات کو بہتر انداز میں پیکیچ تو کرسکتی ہے، لیکن محض اس کے ذریعہ معجزاتی نتائج حاصل کرنے کی سوچ مناسب نہیں ہے۔"

ان کے بقول، ''پاکستان کو اپنی سفارتی اور سیاسی کوششوں کو مزید موثر کرنا ہوگا اور تمام کوششوں کے ذریعے امریکہ اور پاکستان کے اہم تعلقات پر اپنا کیس پیش کرنا ہوگا۔"