کرونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں امریکہ نے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جنہیں وہ ترجیحی بنیادوں پر امداد فراہم کرے گا۔
ماہرین کے مطابق، امریکہ پاکستان کو امداد کے علاوہ ترجیحی بنیادوں پر تجارتی رسائی دے کر کرونا وائرس کے بحران کے دوران اقتصادی نقصان کا ازالہ کر سکتا ہے اور ساتھ ہی اس کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم وڈرو ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے معاون ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا ہے کہ دوطرفہ تجارت بڑھانے کے بہت سے مواقع ہیں۔
اُن کے بقول، ''کیونکہ امریکہ اس وقت کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بڑے بحران سے نبردآزما ہے وہ ماضی کی طرح شاید دوسرے ملکوں کو بڑے پیمانے پر امداد فراہم نہ کرسکے۔ لیکن، اس بحران کے خاتمے پر امریکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبے میں تعاون بڑھا کر پاکستان کی بہت مدد کر سکتا ہے۔"
کوگل مین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں سالانہ تجارت پہلے ہی تقریباً سات ارب ڈالرز کے قریب ہے اور اسے بڑھانے کے بہت امکانات موجود ہیں۔
خطہ میں پاکستان کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے، کوگل مین نے کہا کہ پاکستان کا افغان امن کے سلسلے میں مزید اہم کردار پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارت میں اضافے کے امکانات کو بہت بڑھا دے گا۔
کوگل مین کے مطابق، سرمایہ کاری اور تجارت کے باہمی تعاون سے ایک طرف تو پاک امریکہ تعلقات کو تقویت ملے گی گی، جب کہ دوسری طرف یہ بات بھی ظاہر ہوگی کہ چین کے مقابلے میں امریکہ بھی پاکستان کی ترقی میں ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک وڈیو پیغام میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر پال جونز نے کہا تھا کہ امریکہ اس وقت پاکستان کو 10 ملین ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ امریکہ نے اس کے علاوہ جی ٹونٹی ممالک کے گروپ کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے جس کے تحت ترقی پذیر ممالک کو قرض ادا کرنے میں چھوٹ حاصل ہوگی؛ اور پاکستان بھی ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے۔
ماضی میں خطے میں ہونے والے کئی بحران اور جنگیں امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنے ہیں۔
پاک امریکہ تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ 2005 کے تباہ کن زلزلے نے جب پاکستان کو شدید جانی اور مالی نقصان پہنچایا، تو امریکہ نے اپنے چنوک ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پاکستان کی بہت مدد کی۔ بہت سی جانیں بچانے پر چنوک ہیلی کاپٹرز کو 'اینجلز آف مرسی' قرار دیا گیا۔
آج 2020 میں خطے میں ایک مختلف صورتحال ہے۔ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے افغان امن مذاکرات کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر اکبر ایس احمد امریکی یونیورسٹی میں ابن خلدون شعبہ اسلامیات کے چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات خطے میں امن اور سلامتی کیلئے اہم رہیں گے۔
انھوں نے کہا ہے کہ باہمی اقتصادی تعاون اور تجارت سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت بہتری آ سکتی ہے؛ جب کہ کرونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اور تعلیمی شعبے میں بہتری لانے کے لئے امریکی امداد دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوگی۔
جیمز ویٹی ورجینیا میں قائم سوشل سائنس ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور تعلیمی اور تجارتی سرگرمیوں میں شرکت کے لیے کئی بار پاکستان جا چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں تجارت کے فروغ اور امریکہ کی طرف سے سرمایہ کاری دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
وائس وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ "امریکہ پاکستانی کپڑے کی صنعت سے بہت ساری مصنوعات برآمد کر سکتا ہے۔ اور کرونا چیلنج کے پیش نظر امریکہ کے لیے پاکستان ترجیحی تجارتی پروگرام میں شامل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے۔
دوسری طرف، جیمز ویٹینے کہا کہ ''توانائی کے شعبے میں امریکی کمپنیاں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کی ضروریات کو بھی پورا کرسکتی ہیں اور اپنے بزنس کو بھی آگے بڑھا سکتی ہیں۔"