فلسطینی سالہا سال سے ایک الگ ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کبھی پر تشدد راستہ اپنا کر ، کبھی پر امن احتجاج اور مذاکرات کے ذریعے ۔اب انہوں نے اقوام متحدہ سےرجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کہتے ہیں کہ اگرامریکہ اور دوسرے ممالک کے سفارت کار مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کے لئے کوئی قابل یقین تجویز پیش نہیں کرتے تو فلسطین کے صدر کے پاس ایک باقاعدہ ریاست کے قیام کے لئے اقوام متحدہ کے سامنے درخواست پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے باقاعدہ درخواست اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو دیں گے ۔
یہ حکمت عملی امریکہ کے ساتھ فلسطین کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے ۔ امریکہ فلسطین کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے ۔
فلسطینیوں کا کہناہے کہ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرار داد کی حمایت میں مظاہرے کئے جائیں گے۔ جب کہ امریکہ نے اس معاملے کو سیکیورٹی کونسل میں ویٹو کرنے کی دھمکی دی ہے ۔
خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی منصوبے کی مخالفت سے عرب دنیا میں امریکہ ٕمخالف جذبات کو ہوا ملے گی جہاں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی شورش کی فضا ہے۔ ٕ
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈیوڈ میکووسکی کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کی تشویش کی اور بھی وجوہات ہیں۔ ان کا کہناہے کہ خارجہ پالیسی، معاشی بحران اور انتخابات ان کی ترجیحات ہیں۔
امریکی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ ریاست کے قیام کے لئے اقدام سےفلسطین کے لئے امریکی امداد بھی بری طرح متاثر ہوگی۔جس کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی کاوجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسرائیل بھی موجودہ صورت حال سے پریشان ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے معاملے پر کسی بھی ووٹنگ کے بعد تشدد میں اضافہ ہوگا۔
فلسطینی کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو بھی ہوگا ، وہ براہ راست مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بنے گا مگر اسرائیل کو خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں تشدد ہو گا جس سے امن عمل متاثر ہوگا ۔