بدھ کے روز وائٹ ہاؤس میں میانمار کی اصل رہنما، آنگ سان سوچی سے مذاکرات کے بعد، امریکی صدر براک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ میانمار پر لاگو معاشی تعزیرات اٹھانے پر تیار ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ یہ تعزیرات اٹھانے پر تیار ہے جنھیں کسی وقت برما کے خلاف عائد کیا گیا تھا‘‘۔
اِس سے قبل، اوباما نے کانگریس کو ایک مراسلہ روانہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میانمار کے لیے تجارتی سہولتیں بحال کر رہا ہے جنھیں دو عشرے قبل لاگو کیا گیا تھا، جب ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری تھیں۔
وائٹ ہاؤس میں اوباما کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران، آنگ سان سوچی نے اُن کے ملک کی معشیت کے خلاف عائد تمام پابندیاں اٹھائے جانے کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ ایسے میں جب میانمار جمہوری عبوری دور کی جانب بڑھ رہا ہے، ’’بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے‘‘۔
اُنھوں نے تسلیم کیا کہ میانمار کے 135 نسلی گروہوں میں تناؤ جاری ہے، اور کہا کہ اُن کی انتظامیہ رخائین کی صورتِ حال پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہے۔
سوچی نے کہا کہ ’’برادریوں کے درمیان کشیدگی کے معاملےکو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
بحیثت حکومت کی مشیر اور وزیر خارجہ، آنگ سان سوچی کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ تھا، جو عہدہ اُنھوں نے گذشتہ نومبر میں اُن کی پارٹی کی طرف سے ملکی انتخابات جیتنے کے بعد سنبھالا تھا۔
فوجی دور میں ملک میں تشکیل دیے گئے آئین میں اُن پر صدارت کا عہدہ سنبھالنے پر ممانعت ہے چونکہ اُن کے آنجہانی شوہر اور بچے غیر ملک کے شہری ہیں۔
آنگ سان سوچی نے 20 برس سے زیادہ عرصے تک ملک میں گھر میں نظر بندی میں رہ کر گزارے، جسے برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ’اوول آفس‘ میں اُن کی اوباما کے ساتھ ملاقات کو ایک واضح پیغام خیال کیا جا رہا ہے کہ اُنھیں ہی میانمار کی فی الواقع رہنما سمجھا جاتا ہے۔
مارچ کے آخر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد، اُنھوں نے کبھی تمام تعزیرات اٹھائے جانے پر زور نہیں دیا، جنھیں زیادہ جمہوری اصلاحات لانے کے سلسلے میں فوج کے ساتھ توازن کا لازم شرط خیال کیا جاتا ہے۔
منگل کو واشنگٹن میں میانمار پر منعقدہ ایک اجلاس میں بولتے ہوئے، اوباما کے قومی سلامتی کے معاون مشیر، بین رہوڈز نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امریکی تعزیرات اقتصادی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل نہ ہوں، جو عوام کو فائدہ پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔