چھ نومبر کے صدارتی انتخاب کی مہم میں اب تک دونوں امیدواروں کےدرمیان برابر کا مقابلہ رہا ہے
امریکہ میں ریپبلیکنز یہ امید کر رہے ہیں کہ اس ہفتے فلوریڈا میں ان کے قومی کنونشن کے نتیجے میں مٹ رومنی کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔ چھ نومبر کے صدارتی انتخاب کی مہم میں اب تک دونوں امیدواروں کےدرمیان برابر کا مقابلہ رہا ہے۔
خلیج ِ میکسیکو میں سمندری طوفان آئزک کی آمد کی وجہ سے، ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن کا آغاز مقررہ وقت پر نہیں ہو سکا ۔ لیکن ریاست فلوریڈا کے کانگریس مین ڈینس روس کہتے ہیں ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کنونشن کا موڈ بہتر ہو تا گیا ۔
اُن کے الفاظ میں، ’ہمیں شروع میں ہی پیر کے دن کا کنونشن منسوخ کرنا پڑا ۔ہم نے حالات پر نظر رکھی اور موسم کے ساتھ ساتھ کنونشن بھی بہتر ہوتا گیا ۔ میرے خیال میں ہماری تحریک کو یہاں جو طاقت ملی ہے وہ اگلے 68 دنوں تک جاری رہے گی، اور نومبر میں ہم نیا صدر منتخب کر لیں گے۔
ماضی کے برخلاف جب سیاسی پارٹیوں کے کنونشن میں صدارتی امیدوار کو چنا جاتا تھا، آ ج کل کے کنونشن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صدارتی امید وار وں کو پورے ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی انتخاب مہم کے اہم نکات کی وضاحت کر دی جائے ۔
اس سال مٹ رومنی کے لیے ایسا کرنا خاص طور سے اہم ہے ۔ مہینوں کے اشتہارات کے بعد جس میں ان کی شخصیت پر پہلے ریپبلیکن پرائمری انتخابات میں ان کے قدامت پسند حریفوں کی طرف سے ، اور پھر صدر براک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سےحملے کیے گئے ، مسٹر رومنی کو ذاتی طور پر اپنے حریف صدر اوباما کے مقابلے میں کم پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔
ٹمپا میں ڈیلی گیٹس سے بات کرنے سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ بہت سے ریپبلیکنز کے لیے اب بھی مسٹر اوباما کو شکست دینے کا مقصد بہت زیادہ اہم ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ مسٹر رومنی کو قدامت پسند لیڈر کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں ۔
کالم نویس اور پبلک براڈکسٹنگ سسٹم کے سیاسی تجزیہ کارمارک شیلڈزکہتے ہیں کہ،’ 2012 ءمیں ریپبلیکن پارٹی کو اس اصول پر منظم کیا گیا ہے کہ براک اوباما کو شکست دی جائے ۔ اس میں مٹ رومنی کے ساتھ کسی جذباتی وابستگی کا دخل نہیں‘۔
پارٹی کے لیڈر کہتےہیں کہ انہیں پورا یقین ہے کہ ان کے کنونشن سے پارٹی کو متحد کرنے میں مدد ملی ، اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض ڈیلی گیٹس مسٹر رومنی کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہیں ہیں۔
سینیٹر جان کائیل کا تعلق ریاست ایروزنا کی ریپبلیکن پارٹی سے بہت پرانا ہے ۔ اُن کے بقول، ’وہ رونلڈ ریگن نہیں ہیں ۔ ان جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے ۔ لیکن انھوں نے بہر حال پارٹی کو متحد کر رکھا ہے ۔ ان کا ٹکٹ بہت مضبوط ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں ایک ایسا شخص سمجھا جاتا ہے جس میں غلطیوں کو درست کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے ۔ اس ملک کو اور کیا چاہیئے۔ وہی ایسے شخص ہیں جو جانتے ہیں کہ حالات کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے‘ ۔
ریڈیو کی قدامت پسند شخصیت راجر ہیج کاک کہتے ہیں کہ جب مسٹر رومنی نے اپنے ساتھ کانگریس مین پال رائن کو نائب صدر کے عہدے کے لیے چنا، تو اس سے کچھ کشیدگی کم ہوئی ہو گی ۔
ان کے بقول، کچھ معاملات میں رومنی اکیلے ہی سب کچھ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت قدامت پسندی کے نقطۂ نظر سے ان کا پلیٹ فارم زبردست ہے ۔ نامزدگی کے بعد انھوں نے جو پہلا فیصلہ کیا ہے وہ نائب صدر کے لیے پال رائن کا انتخاب ہے ۔ یہ لاجواب فیصلہ ہے جس سے قدامت پسندوں میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا ہے‘ ۔
قدامت پسندوں میں ایک جانی پہچانی آواز مبصر Ann Coulter کی ہے ۔ انھوں نے ریپبلیکنز کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کی طرف سے حملوں کی نئی لہر کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے کہاکہ، ہمارے خلاف انتخابی مہم میں وہ ایک ہی طریقہ استعمال کرنا جانتے ہیں۔ وہ ہمارے امیدواروں کو احمق یا خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب آپ مٹ رومنی اور پال رائن کو احمق یا خوفناک نہیں بنا سکتے ۔
لیکن، تجزیہ کار مارک شیلڈزکہتے ہیں کہ اگر مسٹر رومنی نومبر میں وہائٹ ہاؤس کے مقابلے میں فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ووٹروں کے ساتھ ذاتی سطح پر تعلق قائم کرنے کا کوئی طریقہ معلوم کرنا ہوگا ۔ ان کے الفاظ میں، ’ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں جن صدور کو ناکامی ہوئی ہے اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان میں عقل و دانش کی یا تجربے کی کمی تھی، بلکہ ان کی شخصیت یا کریکٹر میں نقائص تھے‘ ۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمی کارٹر کی کامیابی کی راہ میں ان کی شخصیت حائل ہوئی ۔ رچرڈ نکسن یقیناً اپنے کیریکٹر کی وجہ سے ناکام ہوئے ۔ ووٹرز ٖخاص طور سے 2012ء میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امیدوار ایسا ہو جو ان کے دکھ درد کو سمجھتا ہو۔
پیر کے روز سے ڈیموکریٹس کو اپنی بات سنانے کا موقع ملے گا جب وہ نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں صدر اوباما کو چار سال کی دوسری مدت کے لیے اپنے کنونشن میں نامزد کریں گے ۔
خلیج ِ میکسیکو میں سمندری طوفان آئزک کی آمد کی وجہ سے، ریپبلیکن پارٹی کے کنونشن کا آغاز مقررہ وقت پر نہیں ہو سکا ۔ لیکن ریاست فلوریڈا کے کانگریس مین ڈینس روس کہتے ہیں ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کنونشن کا موڈ بہتر ہو تا گیا ۔
اُن کے الفاظ میں، ’ہمیں شروع میں ہی پیر کے دن کا کنونشن منسوخ کرنا پڑا ۔ہم نے حالات پر نظر رکھی اور موسم کے ساتھ ساتھ کنونشن بھی بہتر ہوتا گیا ۔ میرے خیال میں ہماری تحریک کو یہاں جو طاقت ملی ہے وہ اگلے 68 دنوں تک جاری رہے گی، اور نومبر میں ہم نیا صدر منتخب کر لیں گے۔
ماضی کے برخلاف جب سیاسی پارٹیوں کے کنونشن میں صدارتی امیدوار کو چنا جاتا تھا، آ ج کل کے کنونشن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صدارتی امید وار وں کو پورے ملک کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی انتخاب مہم کے اہم نکات کی وضاحت کر دی جائے ۔
اس سال مٹ رومنی کے لیے ایسا کرنا خاص طور سے اہم ہے ۔ مہینوں کے اشتہارات کے بعد جس میں ان کی شخصیت پر پہلے ریپبلیکن پرائمری انتخابات میں ان کے قدامت پسند حریفوں کی طرف سے ، اور پھر صدر براک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سےحملے کیے گئے ، مسٹر رومنی کو ذاتی طور پر اپنے حریف صدر اوباما کے مقابلے میں کم پسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔
ٹمپا میں ڈیلی گیٹس سے بات کرنے سے یہ واضح تاثر ملتا ہے کہ بہت سے ریپبلیکنز کے لیے اب بھی مسٹر اوباما کو شکست دینے کا مقصد بہت زیادہ اہم ہے ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ مسٹر رومنی کو قدامت پسند لیڈر کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں ۔
کالم نویس اور پبلک براڈکسٹنگ سسٹم کے سیاسی تجزیہ کارمارک شیلڈزکہتے ہیں کہ،’ 2012 ءمیں ریپبلیکن پارٹی کو اس اصول پر منظم کیا گیا ہے کہ براک اوباما کو شکست دی جائے ۔ اس میں مٹ رومنی کے ساتھ کسی جذباتی وابستگی کا دخل نہیں‘۔
پارٹی کے لیڈر کہتےہیں کہ انہیں پورا یقین ہے کہ ان کے کنونشن سے پارٹی کو متحد کرنے میں مدد ملی ، اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ بعض ڈیلی گیٹس مسٹر رومنی کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہیں ہیں۔
سینیٹر جان کائیل کا تعلق ریاست ایروزنا کی ریپبلیکن پارٹی سے بہت پرانا ہے ۔ اُن کے بقول، ’وہ رونلڈ ریگن نہیں ہیں ۔ ان جیسا تو کوئی بھی نہیں ہے ۔ لیکن انھوں نے بہر حال پارٹی کو متحد کر رکھا ہے ۔ ان کا ٹکٹ بہت مضبوط ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں ایک ایسا شخص سمجھا جاتا ہے جس میں غلطیوں کو درست کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے ۔ اس ملک کو اور کیا چاہیئے۔ وہی ایسے شخص ہیں جو جانتے ہیں کہ حالات کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے‘ ۔
ریڈیو کی قدامت پسند شخصیت راجر ہیج کاک کہتے ہیں کہ جب مسٹر رومنی نے اپنے ساتھ کانگریس مین پال رائن کو نائب صدر کے عہدے کے لیے چنا، تو اس سے کچھ کشیدگی کم ہوئی ہو گی ۔
ان کے بقول، کچھ معاملات میں رومنی اکیلے ہی سب کچھ کرتے رہے ہیں۔ اس وقت قدامت پسندی کے نقطۂ نظر سے ان کا پلیٹ فارم زبردست ہے ۔ نامزدگی کے بعد انھوں نے جو پہلا فیصلہ کیا ہے وہ نائب صدر کے لیے پال رائن کا انتخاب ہے ۔ یہ لاجواب فیصلہ ہے جس سے قدامت پسندوں میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا ہے‘ ۔
قدامت پسندوں میں ایک جانی پہچانی آواز مبصر Ann Coulter کی ہے ۔ انھوں نے ریپبلیکنز کو انتباہ کیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کی طرف سے حملوں کی نئی لہر کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے کہاکہ، ہمارے خلاف انتخابی مہم میں وہ ایک ہی طریقہ استعمال کرنا جانتے ہیں۔ وہ ہمارے امیدواروں کو احمق یا خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اب آپ مٹ رومنی اور پال رائن کو احمق یا خوفناک نہیں بنا سکتے ۔
لیکن، تجزیہ کار مارک شیلڈزکہتے ہیں کہ اگر مسٹر رومنی نومبر میں وہائٹ ہاؤس کے مقابلے میں فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ووٹروں کے ساتھ ذاتی سطح پر تعلق قائم کرنے کا کوئی طریقہ معلوم کرنا ہوگا ۔ ان کے الفاظ میں، ’ہم جانتے ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں جن صدور کو ناکامی ہوئی ہے اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان میں عقل و دانش کی یا تجربے کی کمی تھی، بلکہ ان کی شخصیت یا کریکٹر میں نقائص تھے‘ ۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمی کارٹر کی کامیابی کی راہ میں ان کی شخصیت حائل ہوئی ۔ رچرڈ نکسن یقیناً اپنے کیریکٹر کی وجہ سے ناکام ہوئے ۔ ووٹرز ٖخاص طور سے 2012ء میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ امیدوار ایسا ہو جو ان کے دکھ درد کو سمجھتا ہو۔
پیر کے روز سے ڈیموکریٹس کو اپنی بات سنانے کا موقع ملے گا جب وہ نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں صدر اوباما کو چار سال کی دوسری مدت کے لیے اپنے کنونشن میں نامزد کریں گے ۔