نیو یارک ٹائمز نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی پہلی برسی پر صدر اوبامہ کے کابل کے تازہ دورے پر ایک ادارئے میں کہا ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے یہ عظیم موقع ضائع کر دیا ہے جس میں اس کی پوری وضاحت کی جا سکتی تھی کہ اس جنگ میں سے، جس سے امریکی جان چھڑانے کے لئے بے قرار ہیں باہر نکلنے کی کیا حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر نے اپنا یہ وعدہ دہرایا کہ امریکہ کی لڑنے والی فوج کوسنہ 2014 تک ملک سے باہر نکالا جائے گا اور یہ کہ افغان فوجیں اس سے بہت پہلے اس بات کے لئےتیار ہونگی کہ طالبان کے خلاف لڑائی کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔لیکن اخبار کا خیال ہے کہ صدر کی تقریر کئی مخصوص امور پر خاموش تھی۔مثلاً یہ نہیں بتایا گیاکہ امریکہ اور اس کے اتحادی کس طرح افغان فوجوں کی تربیت میں بہتری لائیں گے، تاکہ وہ طالبان کے خلاف ڈٹ سکیں اور نہ ہی اس کی وضاحت کی گئی کہ صدر کرزئی کیونکراپنی اُس کرپشن اور نا اہلی پر قابو پائیں گے جن کی وجہ سے ان کے اپنے بہت سے لوگ ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس نے عرصے سےافغانستان کی جنگ کی حمائت کی ہے تاکہ القاعدہ اسے امریکہ کے خلاف حملے کرنے کے لئے اڈّے کے طور پر نہ استعمال نہ کر سکے۔ لیکن اخبار کو اس پر تشویش ہے ۔ کہ مسٹر اوبامہ کے پاس یہ بات یقینی بنانے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے ۔ کہ امریکیوں کے وہاں سے روانہ ہونے کے بعد وُہ ملک اندر ہی سے نہ پھٹ پڑے۔
اسی موضوع پر واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے دو تصوّر پیش کئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک خود مختار اور جمہوری افغانستان کی تعمیر اور اس کے دفاع کے ساتھ امریکہ کی طویل المیعاد وابستگی ۔ اور دوسرے 11/9 کے بعد ایک عشرے سے زیادہ عر صے سے جاری اس سمندر پار جنگ کا خاتمہ ۔ اور ان دونوں کا انحصار القاعدہ کی شکست پر ہے۔ جو مسڑاوبامہ کہتے ہیں۔ اب ہماری گرفت کے قریب ہے۔
اخبار کہتا ہے ۔ کہ مسٹر اوبامہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے افغانستان کے ساتھ سٹر ٹیجِک شراکت داری کا معاہدہ کر نے کے لئے کابل کا دورہ کیا ۔ اور اس کی وضاحت بھی کی، اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ افغانستان سے فوری طورپر کیوں نہیں نکل آتا ۔ صدر نے کہا ،۔ کہ ہمیں افغانستان کو استحکام پیدا کرنے کے لئئے وقت دینا چاہئے۔ البتہ شراکت داری کا معاہدہ اخبار کی نظر میں بعض اعتبار سےکچھ زیادہ ہی پُر عزم ہے ۔ لیکن مسٹر اوبامہ نےواضح کر دیا ہے ، کہ امریکہ افغانستان کو امریکی نمونے کی طرز پر نہیں بدل دینا چاہتا۔اور امن کی خواہش کا تقاضہ ہے۔کہ لڑائی ختم کرنے کی واضح مدّت کا تعیّن ہو، لیکن ٹائم ٹیبل مرتّب کرنے سے لڑائی ختم نہیں ہوگی ، ماسوائے امریکیوں کے، کیونکہ اس صورت میں طالبان اور ان کے حامی امن کا سمجھوتہ قبول کرنے کے بجائے امریکی اور نیٹوفوجوں کے انخلاء تک انتطار کرنے کو ترجیح دیں گے۔اخبار کہتا ہے کہ بُہت حد تک اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ بالآخر امریکہ کی کتنی ایک فوج افغانستان میں باقی رہنے دی جائے گی ۔ اور افغان فوج کے اخراجات کس حد تک پورے کئے جایئں گے یہ دونوں باتیں ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ اگر 11/9 کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کی میعاد ختم کرنا مقصود ہے ۔ تو جیسا کہ مسٹر اوبامہ نے کہا ہے ۔ اس ضمن میں جو عہد کیا جائے گا۔وُہ پُختہ اور دیرپا ہونا چاہئے۔۔۔
ایک سال قبل اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ میں اب کتنی جان باقی ہے۔ اس پر بالٹی مور سن کہتا ہے ۔ کہ وہ اور اس سے وابستہ تنظیمیں اب بھی مغرب کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ البتہ اخبار کے بقول پاکستان میں اس کی جو قیادت تھی۔ اُسے ڈرون حملوں سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں۔ کہ 11/9 کے پائے کے دہشت گردانہ حملے سر انجام دے سکے۔
لیکن اخبار کہتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برابر خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ القاعدہ اب بھی فعال تنظیم ہے جس نے یمن ۔ صومالیہ ۔ عراق اور دوسرے علاقوں میں شاخیں قائم کر لی ہیں اور وُہ ابتدائی القاعدہ کی طرح خطرناک ثابت ہو سکتی ہے